اللہ تعالی کو فداۓ محمد کہنا کیسا ہے؟|Allah ko fidaye Mohammad kahna kaisa h

Masailesharai

    حضرت مفتی اعظم (دہلی) کی بارگاہ عالی میں ایک سوال عرض ہے 
اللہ تعالی کو فداے محمد کہنا کیسا ہے؟ یہ کہنا کہ اللہ تعالی فداے محمد صلی اللہ علیہ وسلم وشیداے محمد صلی (اللہ علیہ وسلم) ہے شرعاً کیسا ہے آج کل ایک سلام پڑا جاتا ہے ”آقا لے لو سلام اب ہمارا" اس میں ایک مصرع ہے ”امتی کیا خود خدا ہے شیدا تمہارا" کیا فدا کے معنی یہ ہے اپنی جان دے کر کسی کو بچانا۔

المستفتی: محمّد ذہین جیپور ، راجستھا 

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجواب:

الله تعالى کے تمام اسماءِ حسنیٰ توقیفی ہیں، یعنی کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہیں، ان پر اپنی جانب سے کسی نام کا اضافہ و اختراع کرنا جائز نہیں ہے۔

الله تعالى ارشاد فرماتا ہے

وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآىٕهٖ سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ. (سورة الأعراف، آية 180)

اور بہت اچھے نام الله ہی کے ہیں تو اسے ان ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے دور ہوتے ہیں ، عنقریب اُنہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا 

مفسرینِ کرام نے الله تعالى کے ناموں میں الحاد اور حق سے دور ہونے کی متعدد صورتیں بیان فرمائی ہیں:

    ایک صورت یہ ہے کہ الله تعالى کے اسمائے حسنی میں ترمیم و تبدیل اور تحریف و تغییر کرکے یا بغیر کسی ردوبدل کے غیر الله کے لیے بولا جائے جیسا کہ کفار و مشرکین اپنے بتوں کے لیے بولتے تھے، مثلاً اسمِ جلالت "الله" کو بگاڑ کر "اللات"، "العزیز" کو بگاڑ کر "العزی" اور "المنان" میں تحریف کرکے "المناۃ" کہتے تھے، اور جیسے مسیلمہ کذاب خود کو رحمن کہتا تھا۔ 

    دوسری صورت یہ ہے کہ الله تعالیٰ کے ليے ایسے نام مقرر کرنا جو قرآن و حدیث میں وارد ہوئے ہوں نہ اجماع سے ثابت ہوں جیسے الله تعالیٰ کو سخی، فیاض ، علامہ اور ماہر کہنا۔ 

    تیسری صورت یہ ہے کہ حسنِ ادب کی رعایت نہ کی جائے، مثلاً الله تعالى کو خالقِ خنزیر کہنا، بے شک رب کریم تمام جہان کا خالق ہے، لیکن مذکورہ نسبت حسنِ ادب کی رعایت سے خالی ہے، لہٰذا ایسا کہنا جائز نہیں ہے۔ 

    الحاد کی چوتھی صورت یہ ہے کہ الله تعالى کے لیے ایسے نام مقرر کرلینا جن کے معنی فاسد و باطل اور شانِ الٰہی کے خلاف ہوں، جیسے رام، پرماتما، بھگوان، دیوتا، وغیرہ بولنا؛ کیونکہ ان کے معنی بھی الله تعالى کی شان کے لائق نہیں اور شریعت میں وارد بھی نہیں (جس لفظ کا معنی شایانِ شانِ الٰہی نہ ہو شریعت میں اس کے وارد ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا)

   پانچویں صورت یہ ہے کہ ایسے ناموں کا اطلاق کرنا جن کے معنی معلوم نہ ہوں، مثلاً بدوح۔ 

    شیدا اور فداء کا معنی الله تعالى کی شان کے خلاف اور منافی ہے، لہٰذا یہ دونوں نام الله تعالى کے لیے دو وجہ سے استعمال کرنا ناجائز و گناہ ہے ،پہلی وجہ تو یہ ہے کہ الله تعالى کے تمام نام توقیفی ہیں ،اور یہ دونوں نام محض اختراعی ہیں. دوسری وجہ یہ ہے کہ ان دونوں الفاظ کے معنی شانِ الٰہی کے خلاف ہیں؛ کیونکہ شیدا فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں : آشفتہ۔ دیوانہ۔ فریفتہ۔ مجنوں۔ عشق میں ڈوبا ہوا۔ 

   اسی طرح اردو میں فدا کا مطلب ہے : دوسرے کے بدلہ جان دینا ، (کبھی جان دینے والے کو بھی فدا بولا جاتا ہے) فدیہ دینا، قربان ہونا، نثار، صدقے، نچھاور، سر یا جان کی قیمت، سر بہا، صلہ یا عوض جس کے وسیلے سے اپنے کو یا کسی دوسرے شخص کو نجات دیں، صدقہ، بھینٹ، نذر، تصدق، فدیہ۔ 

    شیدا اور فدا کے مذکورہ معانی میں غور کرنے سے یہ بات روز روشن کی طرح بالکل واضح و بے غبار ہے کہ ان میں سے کوئی معنی رب کریم کے لیے جائز و درست نہیں، بلکہ ہرمعنی رب کریم کی شان کے خلاف ہے، لہٰذا رب کریم کے لیے ان الفاظ کا استعمال کسی طرح جائز نہیں۔  واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ 

کتبه الفقیر الی ربه القدیر:ابو الحسان محمد اشتیاق القادری 

خادم الافتاء و القضاء بجامعۃ مدینۃ العلم کبیر نگر دہلی94