المستفتی:
الجواب:
بول و براز یا ریح کو بقوت روک کر نماز پڑھنا یا پڑھانا مکروہِ تحریمی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا يَحِلُّ لِرَجلٍ يؤمِنُ باللَّهِ واليومِ الآخرِ أن يصلِّيَ وَهوَ حَقِنٌ حتَّى يتخفَّفَ. (سنن أبى داؤد ،كتاب الطهارة ،حديث نمبر 91)
جو الله تعالى اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کے لی یہ حلال نہیں کہ وہ پیشاب پاخانہ کے دباؤ کے وقت نماز پڑھے یہاں تک کہ وہ اس سے فارغ ہوجائے۔
ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله تعالى عنها فرماتی ہیں کہ میں نے رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:
لا صلاة بحضرة طعام و لا وهو يدافعه الأخبثان. (صحيح مسلم ،حديث نمبر 1246)
نہ کھانا حاضر ہونے کے وقت کوئی نماز ہے اور نہ بول و براز کو روک کر۔
تنویر الأبصار مع الدرالمختار مع رد المحتار، جلد 2 ،ص 408 پر ہے:
و صلاته مع مدافعة الأخبثين أو أحدهما أو لريح للنهى۔
بول و براز یا ریح کو بقوت روک کر نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔
اس کے تحت علامہ شامی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
قال فى الخزائن : سواء كان بعد شروعه أو قبله، فإن شغله قطعها إن لم يخف فوت الوقت، وإن أتمها أثم لما رواه أبو داؤد "لا يحل لأحد يؤمن بالله واليوم الآخر أن يصلي وهو حاقن حتى يتخفف" أي مدافع البول، ومثله الحاقب: أي مدافع الغائط والحازق: أي مدافعهما وقيل مدافع الريح اهـ۔
وما ذكره من الإثم صرح به في شرح المنية وقال لأدائها مع الكراهة التحريمية۔
بقي ما إذا خشي فوت الجماعة ولا يجد جماعة غيرها، فهل يقطعها كما يقطعها إذا رأى على ثوبه نجاسة قدر الدرهم ليغسلها أو لا، كما إذا كانت النجاسة أقل من الدرهم. والصواب الأول، لأن ترك سنة الجماعة أولى من الإتيان بالكراهة: كالقطع لغسل قدر الدرهم فإنه واجب، ففعله أولى من فعل السنة، بخلاف غسل ما دونه فإنه مستحب فلا يترك السنة المؤكدة لأجله، كذا حققه في شرح المنية۔ (ردالمحتار ،جلد 2 ،ص 408)
مفہومِ عبارت:
خزائن میں ہے کہ بول و براز کے غلبہ کی حالت نماز شروع کرنے کے بعد ہو اس قدر ہو کہ نمازی کے لیے حارج بن جائے تو اگر وقت ختم ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو نماز توڑدے، اور اگر اسی طرح نماز پڑھ لی تو گناہ گار ہوا؛ کیونکہ حدیث شریف میں ہے "جو الله تعالى اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ بول و براز کو روک کر نماز پڑھے یہاں تک کہ ان سے فارغ ہولے" یہ حکم بول و براز کی طرح ریح روکنے والے کو بھی شامل ہے۔
گناہ گار ہونے کی بات کی صراحت شرحِ منیہ میں موجود ہے، اس میں ہے کہ اس حالت میں نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔
اور اگر بول و براز و ریح کا غلبہ نماز شروع کرنے سے پہلے ہو تو وقت میں گنجائش ہوتے ہوئے نماز شروع کرنا ہی منع اور گناہ ہے
یہاں سے معلوم ہوا کہ امام مذکور کو اگر نماز شروع کرنے سے پہلے ہی ریح کا ایسا غلبہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے دل نماز سے غافل ہوجاتا ہے اور خشوع جاتا رہتا ہے تو اس حالت میں نماز پڑھانا گناہ ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبه الفقیر الی ربه القدیر: ابو الحسان محمد اشتیاق القادری خادم الافتاء و القضاء بجامعۃ مدینۃ العلم کبیر نگر دہلی94