کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل میں کہ نکاح پڑھانے کے پیسے کا حق دار کون ہے؟ نکاح پڑھانے والا یا صاحبِ لڑکی کے گھر سے متعلق مسجد کا امام۔ شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
المستفتی: محمد ناظم رضا قصبہ کیمری ضلع رامپوری
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الله العلیمالوھاب و ھو الموفق للحق والصواب:
نکاح پڑھانے میں وقت بھی صرف ہوتا ہے، رجسٹر میں ناموں کا اندراج بھی کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے اپنی بہت سی مصروفیات کو چھوڑنا پڑتا ہے، لہٰذا اس دور میں نکاح خوانی کا جو طریقہ رائج ہے وہ ضرور قابلِ اجارہ عمل ہے، نکاح پڑھانے والے کو چاہیے کہ نکاح پڑھانے سے پہلے عرف و عادت کے مطابق نکاح خوانی کی اجرت طے کرلے، تاکہ بعد میں کسی قسم کا نزاع و اختلاف نہ ہو۔
اور نکاح خوانی پر ملنے والے پیسے کا صرف اور صرف نکاح پڑھانے والا شخص حق دار ہے، محلہ کی مسجد، گواہان، وکیل، یا شہر کے قاضی وغیرہ کا اس میں ذرہ بھر کوئی حق نہیں ہے، جو لوگ نکاح پڑھانے والے سے مختلف حیلوں بہانوں اور نت نئی اور غیر شرعی شرائط کی بنیاد پر جو پیسے مانگتے اور لیتے ہیں وہ سب ظلم و غصب ہے. فإن الأجرة يستحقها بمقابلة العمل من بأسره لاغيره۔ والله تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبه الفقیر الی ربه القدیر: ابو الحسان محمد اشتیاق القادری۔
خادم الافتاء والقضاء بجامعۃ مدینۃ العلم کبیر نگر دہلی94