علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں کہ گلاب کا پھول کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ مبارک سے پیدا ہوا ہے؟ اور گلاب کا پھول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے مبارک سے پہلے وجود تھا یا نہیں دلیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیے مہربانی ہوگی
السائل: محمد عبداللہ کرناٹک
الــجـواب بـعـون الـلـه الـعـليم الـوهـاب وهـو الـمـوفـق لـلـحـق و الــصـواب :
گلاب کی پیدائش کے تعلق سے امام ابوالفرج عبد الرحمن بن علی بن جوزی (وصال 597ھ) رحمه الله تعالى نے سیدنا علی مرتضیٰ، حضرت انس بن مالک، حضرت جابر، اور ام المؤمنين سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله تعالى عنهم کی روایات ذکر فرمائی ہیں جو بالترتیب اس طرح ہیں :
سیدنا علی مرتضیٰ رضی الله تعالى عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم نے فرمایا :
ليلة أسرى بي إلى السماء سقط إلى الأرض من عرقى فنبت منه الورد، فمن أحب يشتم رائحتي فليشتم الورد. (الموضوعات، حديث نمبر 1467)
جس رات مجھے آسمان کی سیر کرائی گئی میرے پسینے کچھ قطرے زمین پر گرے تو اس سے گلاب اگ آیا، تو جو شخص میری خوشبو سونگھنا چاہے وہ گلاب کو سونگھ لے.
حضرت انس بن مالک رضی الله تعالى عنه کے روایت کے دو طریق ہیں :
پہلا طریق :
حضرت انس بن مالک رضى الله تعالى عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم نے فرمایا :
لما عرج بي إلي السماء بكت الأرض من بعدى فنبت اللصف من مائها، فلما أن رجعت قطر من عرقى على الأرض فنبت ورد أحمر، ألا من أراد أن يشتم رائحتي فليشتم الورد الأحمر.(أيضا)
جب مجھے معراجِ آسمانی ہوئی تو زمین میری جدائی کی وجہ سے روپڑی، تو اس کے پانی سے سفید پھولوں والا خاردار درخت پیدا ہوا، جب میں واپس ہوا تو میرے پسینے کے کچھ قطرے زمین پر گرے تو سرخ گلاب پیدا ہوگیا، سنو جو میری خوشبو سونگھنا چاہے وہ سرخ گلاب کو سونگھ لے.
دوسرا طریق :
حضرت انس بن مالک رضی الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم نے فرمایا :
الورد الأبيض خلق من عرقي ليلة المعراج، و خلق الورد الأحمر من عرق جبريل عليه السلام، و خلق الورد الأصفر من عرق البراق. (أيضا، كلاهما تحت الرقم 1468)
شبِ معراج میرے پسینے سے سفید گلاب، جبریل علیہ السلام کے پسینے سے سرخ گلاب، اور براق کے پسینے سے زرد گلاب پیدا کیا گیا.
حضرت جابر رضی الله تعالى عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم نے فرمایا :
من أراد أن يشم رائحتي فليشم رائحة الورد. (أيضا)
جو میری خوشبو سونگھنا چاہے وہ گلاب کی خوشبو سونگھ لے.
ام المؤمنين عائشہ صدیقہ رضی الله تعالى عنها فرماتی ہیں کہ رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم نے فرمایا :
من أراد أن يشم رائحتي فليشم الورد الأحمر. (أيضا)
جو میری خوشبو سونگھنا چاہے وہ سرخ گلاب کو سونگھ لے.
مذکورہ روایات کو ذکرنے کے بعد علامہ ابن جوزی پہلے اجمالاً لکھتے ہیں :
هذه أحاديث كلها محال. (الموضوعات ،جلد 3 ،ص 242)
یہ سب باطل و محال روایات ہیں.
اس کے بعد تفصیلاً مذکورہ روایات کے موضوع و بے اصل ہونے کے اسباب بیان کیے ہیں، فعليك بالمراجعة إلي الكتاب.
گلاب کے پھول کی پیدائش سے متعلق مذکورہ روایات اور ان جیسی دوسری روایات کو ابن عدی الکامل میں، ذہبی نے میزان الاعتدال میں، ابن حجر عسقلانی نے لسان المیزان میں، سیوطی نے اللألي المصنوعة میں، سخاوی نے المقاصد الحسنة میں، ابن عَرّاق کتانی نے تنزيه الشريعة المرفوعة میں، عجلونی نے کشف الخفاء میں، اور خلق کثیر نے اپنی اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے کہ یہ تمام روایات موضوع و مصنوع، جھوٹ اور من گھڑت ہیں.
گلاب نبی کریم صلی الله تعالى عليه وسلم کی ولادتِ مبارکہ سے پہلے یقیناً موجود تھا، اس پر دلیل قرآنِ کریم کا یہ ارشاد ہے :
فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ. (سورة الرحمٰن، آية 37)
پھر جب آسمان پھٹ جائے گا تو گلاب کے پھول جیسا ہوجائے گا جیسے سرخ چمڑا. وَالـلّٰـهُ تَـعَـالٰـي أَعْـلَـمُ بِـالـصَّـوَابِ.
كــتـــــــــــــــــــــبـــــــــــــــه الــــفـــــقـــــــيــــــر إلـــــــي ربـــــــــــــه الــــقــــديــــر :أبـو الـحـسَّـان مُـحَـــمَّــــد اشــــتـــيـــاق الـــقـــادري
خـادم الإفـتـاء والـقـضـاء بـــجـــامــعـة مـديـنــة الـعــــــلـم ،كـــبـــيـــــر نــگــر ،دهــــــــلـي 94.