قیامت کب آئے گی اور کیا دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے

قیامت کب آئے گی اور کیا دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین شرعی متین اس مسئلہ میں کہ اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالی نے فتاوی رضویہ جلد 5 ص 17 پر فرمایا کہ دنیاء کی عمر سات ہزار ہے اور جیسا کہ امام سیوطی نے بھی الحاوی للفتاوی میں احادیث سے استدلال کرتے ہوئے نتیجہ نکالہ کہ دنیاء کی عمر سات ہزار ہے حالاں کہ قران پاک کے اندر فرمایا گیا ہے کہ قیامت اچانک آئے گی دریافت امر یہ ہے اگر دنیاء کی عمر سات ہزار مان لی جائے تو یہ قران کے خلاف ہوگا اس لئے کہ جب احادیث میں سال بھی بتادیا گیا تو قیامت تو اچانک رہی نہیں اور قران میں بتایا کہ قیامت (بغتۃ) اچانک ائے گی

مدلل مفصل جواب ارشاد فرمائیں


سائل :محمد رضوان رضا


بِـسْمِ الـلّٰـهِ الـرَّحْـمٰـنِ الـرَّحِـيْـمِ.


الــجـواب بـعـون الـلـه الـعـليم الـوهـاب وهـو الـمـوفـق لـلـحـق و الــصـواب :

 دنیا کی عمر سات ہزار سال ہونے اور قیامت کے اچانک آنے میں کوئی تعارض و ٹکراؤ نہیں ہے؛ کیونکہ قیامت کے اچانک آنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اپنی گمراہی و ضلالت، بے خبری و غفلت، نادانی و جہالت ،بے وقوفی و بلادت ،دنیا طلبی و عشرت کوشی، دین سے نفرت و بیزاری، کفر و شرک کی نجاست و رطانت میں آلودگی اور الله تعالى اور اس کے رسول صلى الله تعالى عليه وسلم کی تعلیمات سے پورے طور پر انحراف و اعراض کی بدترین حالت سے دوچار ہوں گے، قیامت کی چھوٹی بڑی تمام علامات گذر چکی ہوں گی، اور حجتِ الہیہ قائم ہوچکی ہوگی، مگر اس کے باوجود ان کے ذہن و دماغ قیامت قائم ہونے کے خیال سے عاری و خالی ہوں گے، ان کے دل میں ایمان ہوگا نہ قیامت آنے کا کوئی تصور، بلکہ وہ دنیا کو سب کچھ اور ہمیشگی کا گھر سمجھ کر روزمرہ کے معمولات میں مصروف ہوں گے کہ یک بیک بغیر کسی اعلان و اطلاع کے حضرتِ اسرافیل عليه السلام کو صور پھونکنے کا حکم ہوگا جس سے سب کے سب فنا ہوجائیں گے.


قیامت کے اچانک آنے کی کیفیت و حالت کو مندرجہ ذیل حدیث شریف کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے، سیدنا ابو ہریرہ رضی الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم نے ارشاد فرمایا :


لا تَقُومُ السّاعَةُ حتّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِن مَغْرِبِها، فإذا طَلَعَتْ فَرَآها النّاسُ آمَنُوا أجْمَعُونَ، فَذلكَ حِينَ: {لا يَنْفَعُ نَفْسًا إيمانُها لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ، أوْ كَسَبَتْ في إيمانِها خَيْرًا} [الأنعام: ١٥٨] ولَتَقُومَنَّ السّاعَةُ وقدْ نَشَرَ الرَّجُلانِ ثَوْبَهُما بيْنَهُما فلا يَتَبايَعانِهِ، ولا يَطْوِيانِهِ، ولَتَقُومَنَّ السّاعَةُ وقَدِ انْصَرَفَ الرَّجُلُ بلَبَنِ لِقْحَتِهِ فلا يَطْعَمُهُ، ولَتَقُومَنَّ السّاعَةُ وهو يَلِيطُ حَوْضَهُ فلا يَسْقِي فِيهِ، ولَتَقُومَنَّ السّاعَةُ وقدْ رَفَعَ أحَدُكُمْ أُكْلَتَهُ إلى فيه فلا يَطْعَمُها. (صحيح بخارى ،حديث نمبر 6506. صحيح مسلم ،حديث نمبر 396)


قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے، تو جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو اس کو تمام لوگ دیکھیں گے اور سب کے سب ایمان لے آئیں گے، یہ اس وقت ہوگا جب “کسی شخص کو اس کا ایمان قبول کرنا نفع نہیں دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہوگا یا جس نے اپنے ایمان میں کوئی بھلائی حاصل نہیں کی ہوگی” اور قیامت اس حال میں قائم ہوگی کہ دولوگ اپنے درمیان (خرید و فروخت کے لیے) کپڑے کھول رہے ہوں گے وہ اس کی خرید فروخت کرپائیں گے نہ اسے لپیٹ پائیں گے، اور یقیناً قیامت اس حال میں آئے گی کہ ایک شخص اپنی اونٹنی کا دودھ نکال کر آئے گا لیکن اس کو پی نہیں سکا ہوگا، قیامت اس حال میں واقع ہوگی کہ ایک شخص اپنے حوض کو لیپتا لیستا ہوگا، لیکن اس سے پانی پینے کی نوبت نہیں آئی ہوگی، اور بے شک قیامت اس حال میں برپا ہوگی کہ تم میں سے کوئی اپنا لقمہ اٹھاکر منہ کی طرف لے جائے گا اور اس کو کھانہیں پائے گا.


جواب کا خلاصہ یہ ہوا کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال ہو، لیکن لوگ دنیا میں انہماک اور دین سے بیزار ہونے کے سبب قیامت کے آنے سے غافل و مدہوش ہوچکے ہوں اور اپنے معمولات میں مصروف ہوں کہ اچانک قیامت آجائے اور ان کو سنبھلنے کا موقع بھی نہ مل سکے.


یہ جواب اس تقدیر پر ہے کہ روایاتِ مذکورہ کو ثابت مانا جائے جیسا کہ امام حکیم ترمذی، امام جلال الدین سیوطی اور کئی اہل علم کے استدلال و احتجاج سے ظاہر ہے، لیکن فقیر قادری کی تحقیق پر وہ تمام آثار و اخبار جن میں دنیا کی عمر سات ہزار سال بیان کی گئی ہے یا تو انتہائی ضعیف ہیں جن سے کسی حکم کا اثبات و استنباط کیا جاسکتا ہے نہ احتجاج و استدلال، اور یا تو موضوع و باطل ہیں جنہیں صرف اعتبار اور ان کے موضوع ہونے کے اظہار کے لیے بیان کیا جاسکتا ہے. وَالـلّٰـهُ تَـعَـالٰـي أَعْـلَـمُ بِـالـصَّـوَابِ.


كــتـــــــــــــــــــــبـــــــــــــــه الــــفـــــقـــــــيــــــر إلـــــــي ربـــــــــــــه الــــقــــديــــر :

أبـو الـحـسَّـان مُـحَـــمَّــــد اشــــتـــيـــاق الـــقـــادري.خـادم الإفـتـاء والـقـضـاء