Imam nisai wa sunane nisai ki ahamiyat wa efadiyat buzurgo ki nazar me | امام نسائی و سنن نسائی کی اہمیت اور افادیت بزرگوں کی نظر میں


امام نسائی و سنن نسائی کی اہمیت اور افادیت بزرگوں کی نظر میں

  امام نسائی و سنن نسائی کی اہمیت اور افادیت بزرگوں کی نظر میں

        آئمہ صحاح ستہ میں امام نسائی رحمة اللہ علیہ اور ان کی کتاب سنن نسائی شریف اہم حثیت رکھتی ہے۔ہم یہاں پر ان کی مختصر سیرت اور ان کی کتاب کا تعارف پیش کرتے ہیں۔

ولادت

     آپ کی ولادت خراسان کے ایک مشہور شہر نسا ( ن کی زبر کے ساتھ) میں پیدا ہوئے۔ امام نسائی رحمةاللہ علیہ خود اپنی ولادت کا ذکر فرماتے ہوے ارشاد فرمایا کہ میرا سال پیدائش 215 ھ ہے۔

سیر اعلام النبلاء ج 11 ص 200 الرقم 2588 مکتبہ توفیقیہ

نام :۔

آپ کا نام نامی اسم گرامی ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب بن علی بن بحر بن سنان بن دینار نسائی ہے۔

تاریخ مدینہ دمشق ج 71 ص 170 الرقم 9650 دار الفکر

ابتدائی حالات:۔

    ابتدائی تعلیم کے پندرہ سال کی عمر میں امام نسائی رحمة اللہ علیہ نے علم حدیث کی تحصیل شروع کی سب سے پہلے وہ قتیبہ بن سعید بلخی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کی خدمت میں ایک سال دو ماہ رہ کر علم حدیث حاصل کیا بعد ازاں دوسرے اساتذہ حدیث کی طرف رجوع کیا ۔

تذکرة الحفاظ جز 2 ص 486 الرقم 719

اساتذہ:۔

امام نسائی رحمة اللہ علیہ کے کثیر اساتذہ کرام رضی اللہ عنھم تھے کچھ کے اسماء مبارکہ درج ذیل ہیں۔

قتیبہ بن سعید، اسحاق بن راہویہ، ھشام بن عمار، عیسی بن زغبہ، محمد بن نضر مروزی، ابو کریب، الحسن ابن الصباح البزاز، علی بن حجر، ابو داؤد سلیمان بن اشعث سجستانی رضی اللہ عنھم وغیرہ شامل ہیں۔

سیر اعلام النبلاء ج11 ص 200 الرقم 2588

تلامذہ:۔

    امام نسائی کے تلامذہ کا سلسلہ بھی بہت وسیع ہے متعدد شہروں سے کثیر تعداد میں طلبہ آکر آپ سے اکتساب فیض کیا کرتے تھے چند تلامذہ کے اسماء یہ ہیں۔

     ابو بشر الدولابی، ابو جعفر الطحاوی، ابو علی النیسابوری، حمزہ بن محمد الکنابی، ابو جعفر احمد بن محمد بن اسماعیل النحاس النحوی، عبد الکریم بن ابی عبد الرحمن النسائی، ابوبکر احمد بن محمد بن السنی، ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی رحمة اللہ علیھم وغیرہ

سیر اعلام النبلاء ج11 ص 201 الرقم 2588

شخصیت: ۔

    امام نسائی رحمة اللہ علیہ نہایت خوبصورت شخص تھے توانا جسم تھا لزیز کھانے کو پسند فرماتے عام طور پر مرغ وغیرہ بھنوا کر کھاتے۔ اس کے ساتھ ساتھ خوش وضح اور انتہائی قیمتی اور عمدہ لباس زیب تن کیا کرتے آپ کی چار بیویاں اور کنیزیں اس کے علاوہ تھیں۔

تذکرہ الحفاظ جز 2 ص 486 الرقم 719

عبادت و ریاضت:۔

    امام نسائی رضی اللہ عنہ درس حدیث و فتاوی وتصنیف کے ساتھ ساتھ بے حد عبادت گزار اور شب بیدار تھے۔ بکثرت روزے رکھتے صوم داؤدى کے طریقے کو اپنایا ہوا تھا۔ دن رات عبادت کرتے اور ہر سال حج اور جہاد کے لئے بھی جاتے۔

تذکرہ الحفاظ جز 2 ص 487 الرقم 719 طبقہ 10

تصانیف:۔

آپکی درج ذیل تصانیف ہیں

السنن الکبری نسائی المجتبی خصائص علی مسند علی مسند مالک مسند منصور فضائل الصحابہ کتاب التمییز کتاب المدلسین کتاب الضعفاء کتاب الاخوة کتاب الجرح و التعدیل مشیختہ النسائی اسماء الرواة مناسک حج

تذکرہ المحدثین ص297

فضائل نسائی بازبان محدثین:۔

(1) امام دار قطنی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : امام نسائی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں علم حدیث میں جتنے قابل ذکر لوگ موجود تھے یہ ان سب پر مقدم تھے۔

تذکرہ الحفاظ جز 2 ص 487 الرقم 719

(2) امام دار قطنی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابو بکر ابن الحداد شافعی کثیر الحدیث محدث تھے اور امام نسائی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی سے حدیث بیان نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے میں نے ان کو اپنے اور اللہ تعالی کے درمیان حجت بنا لیا ہے۔

تذکرہ الحفاظ جز 2 صفحہ 487 الرقم 719

(3) امام حاکم نیشاپوری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فقہ حدیث میں امام نسائی کا مقام بہت ہی بلند ہے ۔

سیر اعلام النبلاء ج 11 ص 203 الرقم2588

(4) امام ذھبی فرماتے ہیں کہ ابن یونس حافظ الحدیث ہیں انہوں نے امام نسائی رضی اللہ عنہ سے حدیثیں لی ہیں اور امام نسائی رضی اللہ عنہ حدیث کے عارف ہیں ۔تیسری صدی ھجری کے آخر میں کوئی بھی آدمی نسائی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر حافظ الحدیث نہ تھا ۔

    وہ حدیث اور اس کی علل اور رجال حدیث میں امام مسلم اور ابو داؤد اور ترمذی رضی اللہ عنہم سے زیادہ جامع تھے وہ تو امام بخاری اور ابو زرعہ رضی اللہ عنہما جیسے محدثین کے مراتب سے قریب تھے مگر ان میں کچھ شیعت تھی( یعنی شیعان علی کی طرف میلان تھا)اور مولا علی کرم اللہ وجہہ کے مخالفین سے اعراض کرتے تھے جیسے کہ امیر معاویہ اور عمرو رضی اللہ عنہم۔

اللہ ان سے درگزر فرمائے۔آمین

سیر اعلام النبلاء ج 11 ص 206 الرقم 2588

اس کا جواب اپنے مقام پر دیا جائے گا ان شاء اللہ عزوجل


سنن نسائی شریف کی اہمیت و افادیت :۔

     امام نسائی کی کتاب صحاح ستتہ میں انتہائی اہم حیثیت رکھتی ہے امام نسائی نے اپنی کتاب میں عام طور پر صحیح الاسناد روایات بیان کی ہیں۔

    حافظ سیوطی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام نسائی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ کتاب السنن کی اکثر احادیث صحیح ہیں البتہ بعض احادیث معلول ہیں اور جس انتخاب کا نام مجتبی رکھا گیا ہے اس کی کل احادیث صحیح ہیں ۔

    بعض مشاہیر علماء نے بیان کیا ہے کہ سنن نسائی امام بخاری اور امام مسلم رضی اللہ عنہم دونوں کے طریقوں کی جامع ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب افادیت میں ان کی کتابوں سے بڑھ کر ہے کیونکہ امام نسائی رضی اللہ عنہ نے اپنی سنن میں صرف روایات کو جمع ہی نہیں کیا بلکہ علل حدیث اور دیگر فنون حدیث کا بھی بیان فرمایا ہے حافظ ابو عبد اللہ بن رشید رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علم حدیث میں جس قدر کتابیں تالیف ہوئی ہیں یہ کتاب تصنیف کے لحاظ سے ان سب سے بہتر اور ترتیب کے اعتبار سے سب سے اعلی ہے۔

    خصوصیات کے لحاظ سے یہ بخاری اور مسلم کے اسلوب کی جامع اور بیان علل میں یہ ان سے منفرد اور ممتاز ہے ۔

حافظ سیوطی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ امام ابو الحسن نے کہا ہے کہ جب تم محدثین کی روایات پر نظر ڈالو گے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ جس حدیث کا امام نسائی اخراج کرتے ہیں وہ باقی محدثین کے اخراج کی بنسبت صحت کے زیادہ قریب ہوتی ہے ۔

تذکرہ المحدثین صفحہ 298

احادیث نسائی رضی اللہ عنہ کی تین قسمیں ہیں:

١: وہ احادیث جو بخاری اور مسلم میں ہیں ۔

٢: وہ احادیث جو بخاری اور مسلم کی شرائط کے مطابق ہیں۔

٣: وہ احادیث جن کا خود امام نسائی رضی اللہ عنہ اخراج کیا اور اگر ان میں کوئی علت تھی تو اس کا بیان کردیا۔

تذکرہ المحدثین صفحہ 310

وفات:۔

    حمزہ عقبی مصری اور دوسرے محدثین سے مروی ہے کہ جب امام نسائی رضی اللہ عنہ آخرعمر میں دمشق آئے اور کسی نے ان سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے فضائل کے متعلق سوال کیا تو بولے کیا معاویہ کے لیے اتنا کافی نہیں ہے کہ برابر سرابر نجات پاجائیں چہ جائے کہ تم ان کی تفضیل چاہو؟ یہ سن کر لوگ مشتعل ہوگئے اور انہیں مار مار کر مسجد سے نکال دیا حتی کہ ان کے خصیتین پر چوٹیں لگائیں جس کے صدمہ سے بیمار ہوگے اور اسی حالت میں انہیں مکہ مکرمہ لایا گیا جہاں داعی اجل کو لبیک کہا۔

تذکرہ الحفاظ جز 2 ص 487 الرقم 719


سوال:- کیا امام نسائی رضی اللہ عنہ شیعت کی طرف مائل تھے؟

جواب:۔ اس کا جواب دینے سے پہلے اس بات کو جاننا ضروری ہے کہ متقدمین کے نزدیک شیعت کا اطلاق کس پر ہوتا تھا۔ امام ابن حجر رحمة اللہ علیہ کا کلام پیش خدمت ہے۔

    آپ فرماتے ہیں کہ متقدمین کی اصطلاح میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پر فضیلت دینے کو تشیع کہتے ہیں جبکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو تمام جنگوں میں حق پر ان کے مخالف کو ( اجتہادی ) خطا کار مانا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر شیخین کے تقدم اور ان کی فضیلت کو بھی مانا جائے اور متاخرین کی اصطلاح میں تشیع محض رفض کو کہتے ہیں

تہذیب التہذیب ج 1 ص 97

 اور مقدمہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ 

       حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی محبت اور انہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے افضل جاننے کو تشیع کہتے ہیں پس جو شخص انہیں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھی افضل جانے وہ غالی شیعہ ہے جس کو رافضی کہتے ہیں ورنہ وہ شیعی ہے اور اگر وہ شیخین رضی اللہ عنہم کو شب و شتم بھی کرے یا ان سے بغض ظاہر کرے تو غالی رافضی ہے۔

فتح الباری شرح الصحیح البخاری

خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو شیخین رضی اللہ عنہم سے افضل جانے وہ رافضی اور جو ان کو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے افضل جانے وہ شیعی ہے لیکن امام نسائی کی کسی تصنیف سے یہ کہی نہیں ثابت ہوتا کہ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو شیخین رضی اللہ عنہم یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر فضیلت دیتے ہوں۔

    امام نسائی رحمة اللہ علیہ کی طرف شیعت کا الزام یاتو سحو ہے یا جھوٹ جبکہ اپ اس سے کوسوں دور ہیں ۔ آپ پر الزام لگانے والوں کو اس واقعے سے خطا ہوئی ہے۔

اختصارا پیش خدمت ہے ۔

    جب امام نسائی رضی اللہ عنہ دمشق تشریف لے گئے تھے تو آپ نے دیکھا کہ وہاں کے لوگ مولا علی کرم اللہ وجہہ کے مخالف ہیں تو آپ مولا علی کرم اللہ وجہہ کی شان میں ایک کتاب تصنیف کی اور اس کتاب کو لوگوں کے سامنے دمشق کی جامع مسجد میں ان کو پڑھ کر سنائی اس پر مجمع میں سے کسی شخص نے کہا کہ آپ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل سنائیں اس پر آپ نے کہا کیا وہ حدیث سناو جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا الہی ! اس کے پیٹ کو کھانے سے نہ بھرنا۔ یہ سنے کے بعد لوگ آپ کے آداب بالائے طاق رکھ کر آپ ٹوٹ پڑے۔

اس حکایت نقلی اور عقلی جواب

    اول امام ذھی فرماتے ہیں یقینا اس میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی اس لحاظ سے فضیلت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدایا جس پر میں نے ملامت کی ہو یا بددعا دی ہو وہ اس کا مستحقین نہ ہو تو یہ اس کے لیے پاکیزگی، رحمت اور اجر ہوں گی۔

رواہ مسلم

تذکرہ الحفاظ جز 2 ص 487

    الحافظ ابی قاسم علی بن الحسن ابن ھبة اللہ بن عبداللہ الشافعی المعروف بابن عساکر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان حکایات سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں امام نسائی رحمة اللہ علیہ کی بد اعتقادی پر دلالت نہیں کرتی یہ تو صرف کلی طور پر ان کے ذکر سے کف لسان پر دلالت کرتی ہے۔( اس کف لسان کی وجہ پہلے بیان ہو چکی ہے)

    ابن عساکر فرماتے ہیں تحقیق آپ سے روایت کیا گیا ہے کہ آپ سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا : اسلام ایک گھر کی طرح ہے جسکا ایک ہی دروازہ ہے پس اسلام کا دروازہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں سو جس صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو تکلیف دی تحقیق اس نے اسلام کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کیا جیسے کوئی دروازہ کھٹکھٹائے تو وہ دروازہ سے اند داخل ہونے کا ارادہ کرتا ہے۔

تاریخ مدینہ دمشق ج 71 ص 175 الرقم 9650

    اس روایت اور امام نسائی رضی اللہ عنہ کے اپنے اس قول سے اظہر من الشمس ہو گیا کہ آپ کا تشیع طرف ہرگز ہرگز میلان نہ تھا اور آپ کا یہ فرمان تشیع کی نسبت ختم کرنے کو کافی و وافی ہے آپ کے اس قول سے آپ کی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے محبت کا اندازہ بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

اس کے علاوہ آپ نے فضائل صحابہ رضی اللہ عنھم نامی کتاب تصنیف کی جس میں صحابہ کرام کے فضائل نقل فرمائیں ہیں۔

   حرف آخر آپ نے اپنی سنن نسائی میں بہت سی روایات امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے نقل فرمائیں ہیں 1 کا صرف حوالہ پیش خدمت ہے

سنن نسائی شریف کتاب الزینة من السنن فصل اوصل فی الشعر ج 3 ص 464 الرقم 5261

اللہ تعالی ہمیں بزرگوں کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور بد مذہبوں کے شر سے محفوظ رکھے آمین

کتبہ : سید اویس شاہ

پوسٹ: مولانا وسیم عطاری 

Tags