Hum jins parasti ko "Liwatat" kehna az rooa-e-shari'at kaisa hai? | ہم جنس پرستی کو لواطت کہنا از روۓ شرع کیسا ہے؟

ہم جنس پرستی کو لواطت کہنا از روؤ شرع کیسا ہے؟

ہم جنس پرستی کو لواطت کہنا از روۓ شرع کیسا ہے؟


  کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ہم جنس پرستی کو لواطت کہنا از روؤ شرع کیسا ہے؟ میں نے چالیس سال قبل " ہمارے پیغمبر" نامی کتاب مصنف غالباً ' أحمد مصطفیٰ راہی ، میں پڑھا تھا " کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی بد فعلی کو ' لواطت ' کہنا سراسر پیغمبر کی شان میں گستاخی ہے " اور اس کتاب میں کوئی دوسرا نام دیا گیا تھا ۔ صاحب تصنیف کی یہ عبارت عقلاً بھی درست لگتی ہے کہ کسی قوم کی بد فعلی کو اس قوم کے پیغمبر کے نام نامی اسم گرامی سے منسوب کرنا نہایت نازیبا ہے۔ بینوا و تؤجروا ۔

المستفتی : (حافظ) سعید احمد واحدی جادوں پور ، بریلی شریف٢٠ ربیع النور شریف ١٤٤٦ ہجری ۔


بــســم الــلــه الـــرحــــمــــن الــــرحــــــــــــــيــــــــــــــــــــــم


الــــجــــــواب بـــعــون الـلـه الــعـليم الـوهـاب وهـو الـمـوفـق لــلـــحـــق و الـــــــصـــــــــواب : الله تعالیٰ ہمیں تمام انبیائے کرام عليهم الصلوات و التسليمات کا ادب و احترام بجالانے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی شانِ اقدس و اطہر میں شائبۂ اہانت و گستاخی سے بھی محفوظ و مامون رکھے۔


اغلام بازی، یا ہم جنس پرستی(Homosexuality) ایک انتہائی گندی حرکت اور عقلی نقلی طبی ہر اعتبار سے بدترین فعل ہے، اس فعلِ خبیث کو لواطت اور اس کے مرتکب کو لوطی کہنا بلاشبہ جائز و درست ہے۔


اس بدفعلی و قبیح حرکت کو لواطت کہنے سے سیدنا لوط على نبينا و عليه الصلاة والسلام کی شان میں ہرگز ہرگز کوئی اہانت و گستاخی نہیں ہوتی ہے؛ کیونکہ اس فعلِ شنیع اور عملِ قبیح کی نسبت سیدنا لوط عليه الصلاة والسلام کی جانب نہیں، بلکہ آپ کی اس قوم کی جانب ہے جو شہرِ سدوم کی رہنے والی تھی اور شیطان کے فریب و اغوا کی وجہ سے اس ناپاک و منحوس بدفعلی کی موجد تھی ، اب قیامت تک اس بدفعلی کو لواطت اور اس کے مرتکب کو لوطی کہا جائے گا تاکہ جب بھی اس فعل کی کراہت و شناعت اور مذمت و برائی بیان کی جائے تو فوراً اس خبیث و ملعون قوم اور اس پر نازل ہونے والے المناک و بھیانک عذاب کا تصور ذہن میں آجائے اور لوگ اس جرم کی سنگینی و ہلاکت خیزی کو اچھی طرح سمجھ کر اس کے ارتکاب سے باز رہیں ۔


اس فعلِ خبیث کو احادیث و اخبار میں بھی لواطت ، اور اس کے مرتکب کو لوطی کہا گیا ہے، اسی طرح مفسرین و محدثین اور فقہا و علما بھی لواطت اور لوطی کا بے دریغ استعمال فرماتے ہیں جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس لفظ کے استعمال سے سیدنا لوط عليه الصلاة والسلام کی شانِ اقدس میں کسی قسم کی کوئی گستاخی نہیں ہوتی، بلکہ اس کو گستاخی سمجھنا جہالت و غفلت ہے۔

 

:ذیل میں چند روایات اور اہلِ علم کے ارشادات ملاحظہ فرمائیے 

سیدنا جابر بن عبد الله انصارى رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم نے ارشاد فرمایا 


إذا كثر اللوطية رفع الله عز وجل يده عن الخلق فلا يبالي في أي واد هلكوا. (المعجم الكبير للطبرانى، جلد 2، ص 184، حديث نمبر 1752. والحديث ضعيف، قال الهيثمى : فيه عبد الخالق بن زيد بن واقد و هو ضعيف.( مجمع الزوائد تحت رقم الحديث 10537)


یعنی جب لواطت کرنے والوں کی کثرت ہوجائے گی تو الله عزوجل مخلوق سے اپنا دستِ رحمت اٹھالے گا اور اسے اس کی پرواہ نہیں کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوں گے۔


حضرتِ قتادہ رضى الله تعالى عنه کہتے ہیں کہ حضرتِ عبد الله بن عمرو رضى الله تعالى عنه نے عورت کے پیچھے کے مقام میں صحبت کرنے کے بارے میں فرمایا 


هى اللوطية الصغرى. (شعب الإيمان للبيهقى، جلد 7، ص 277، حديث نمبر 4997)

یعنی یہ چھوٹی لواطت ہے۔


حضرتِ عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم نے ارشاد فرمایا 


تلك اللوطية الصغرى. (شعب الإيمان، جلد 7، ص 278، حديث نمبر 5000)

یعنی اپنی بیوی کے پیچھے کے مقام میں صحبت کرنا چھوٹی لواطت ہے۔


حضرتِ ابو نضرہ رحمه الله تعالى فرماتے ہیں کہ حضرتِ عبد الله بن عباس رضى الله تعالى عنهما سے دریافت کیا گیا 


ما حد اللوطى؟ قال ينظر أعلى بناء بالقرية فيلقى منه، ثم يتبع بالحجارة. (شعب الإيمان، حديث نمبر 5004)

لوطی کی سزا کیا ہے؟ آپ نے فرمایا بستی کی سب سے اونچی عمارت دیکھی جائے، وہاں سے اسے پھینک دیا جائے پھر اس پر پتھر مارے جائیں۔


حضرتِ یزید بن قیس فرماتے ہیں :


أن عليا رجم لوطيا. (شعب الإيمان، حديث نمبر 5006)

کہ حضرتِ علی رضى الله تعالى عنه نے لوطی کو سنگ سار کیا۔


امام ابراہیم نخعی رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں :


لوكان أحد ينبغى له أن يرجم مرتين لرجم اللوطى. (شعب الإيمان، حدیث نمبر 5008)

اگر کسی شخص کو دوبار سنگسار کیا جانا مناسب ہوتا تو لوطی کو دوبار سنگسار کیا جاتا۔


یہاں انہیں چند ارشادات و عبارات پر اکتفا کیا جاتا ہے، ورنہ تفسیر، حدیث، فقہ وغیرہ کی بے شمار کتابوں میں اس فعلِ خبیث کو لواطت اور اس کے مرتکب کو لوطی کہا گیا ہے، لہٰذا ایسا کہنا بالکل جائز و درست ہے.

هٰـــذا مــا عـــنــدى و الــعــلـم بـالــحــق و الـــصــواب عــنــد ربــى وهــو الــلّٰــه سـبـحـانـه وتـعـالٰـى أعــلـم بالــصــواب.


وكــتـــبــه الـفــقيــــر إلٰــى ربـــــــــــــه الــــقــــديــــر :ابـو الـحـسَّـان مُـحَـــمَّــــد اشــــتـــيـــاق الـــقـــادري

خـادم الإفـتـاء والـقـضـاء بـــجـــامــعـة مـديـنــة الـعــــــلـم، كـــبـــيـــــر نــگــر، دهــــــــلـي 94