کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ اپنے اپ کو عاشق رسول کہنا کیسا ہے کیونکہ اعتراض کرنے والا اعتراض میں یہ کہتا ہے کہ عاشق رسول کہنا غلط ہے کیونکہ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنی بہن کے عاشق ہیں اپنی ماں کے عاشق ہیں حالانکہ محبت تو بہن اور ماں سے بھی کرتے ہیں اس کا تسلی بخش جواب عطا فرمائیے گا اللہ تعالی دونوں جہان میں بے شمار برکتیں اپ کو عطا فرمائے امتیاز علی تلھر ضلع شاہجہاں پور
بِـسْمِ الـلّٰـهِ الـرَّحْـمٰـنِ الـرَّحِـيْـمِ
الــجـواب بـعـون الـلـه الـعـليم الـوهـاب وهـو الـمـوفـق لـلـحـق و الــصـواب :
ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم سے اپنی جان، مال، والدین، اولاد اور تمام جہان سے زیادہ محبت کرے.
سیدنا انس بن مالک رضی الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَا يُؤْمِنُ أحَدُكُمْ، حتَّى أكُونَ أحَبَّ إلَيْهِ مِن والِدِهِ ووَلَدِهِ والنَّاسِ أجْمَعِينَ.(صحيح بخاری، حدیث نمبر 15. صحيح مسلم، حديث نمبر 70)
تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے محبوب نہ ہوجاؤں.
حضرت عبد الله بن هشام رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں :
كُنَّا مع النَّبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ وهو آخِذٌ بيَدِ عُمَرَ بنِ الخَطَّابِ، فَقالَ له عُمَرُ: يا رَسولَ اللَّهِ، لَأَنْتَ أحَبُّ إلَيَّ مِن كُلِّ شَيْءٍ إلَّا مِن نَفْسِي، فَقالَ النَّبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: لَا، والَّذي نَفْسِي بيَدِهِ، حتَّى أكُونَ أحَبَّ إلَيْكَ مِن نَفْسِكَ، فَقالَ له عُمَرُ: فإنَّه الآنَ، واللَّهِ، لَأَنْتَ أحَبُّ إلَيَّ مِن نَفْسِي، فَقالَ النَّبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: الآنَ يا عُمَرُ.(صحيح بخاری، حدیث نمبر 6632)
ہم نبی کریم صلی الله تعالى عليه وسلم کے ساتھ تھے اور آپ نے حضرت عمر بن الخطاب رضی الله تعالى عنه کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، اس وقت حضرت عمر رضی الله تعالى عنه نے عرض کی یارسول الله! آپ یقیناً مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں سوائے اپنی جان کے، اس پر نبی اکرم صلی الله تعالى عليه وسلم نے ارشاد فرمایا نہیں، اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے یہاں تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہاری اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہوجاؤں، تو حضرت عمر رضی الله تعالى عنه نے کہا بے شک الله تعالى کی قسم اب آپ مجھے یقیناً مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، تو نبی کریم صلی الله تعالى عليه وسلم نے ارشاد فرمایا اب اے عمر (تمہارا ایمان مکمل ہوگیا)
رسولِ اکرم صلى الله تعالى عليه وسلم سے فرطِ محبت و وفورِ عقیدت کا یہ تعلق جو سفلی خیالات اور نفسانی خواہشات سے یکسر پاک ہوتا ہے،اور تقدیس و تطہیر، ادب و احترام، تعظیم و اجلال، اور توقیر و اکرام کے احساسات و جذبات سے معمور ہوتا ہے اسے عشقِ رسالت اور عشقِ رسالت کے انہیں پاک و شفاف جذبات و احساسات سے سرشار مومن کو عاشقِ رسول (صلى الله تعالى عليه وسلم) کہتے ہیں، عشق و عاشق کا یہ استعمال بغیر کسی کراہت و قباحت کے صحیح و درست ہے، اس کو ناجائز کہنا بے عقلی و نادانی ہے.
رہی یہ بات کہ ہم محبت تو اپنی ماں اور بہن سے بھی کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم اپنی ماں اور بہن کے عاشق ہیں، لہٰذا عاشقِ رسول کہنا بھی غلط ہے. تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ جب انسان عقل کے تقاضوں کی خلاف ورزی پر اتر آتا ہے یا عقل کا بے جا استعمال کرتا ہے تو پھر اسی قسم کی ہفوات بکنے لگتا ہے، ذرا ماں اور بہن سے محبت کرنے والے اور عاشقِ رسول کہنے پر اعتراض کرنے والے ایسے مالیخولیائی شخص سے دریافت کیجیے کہ کیا وہ ماں اور بہن سے محبت کرنے کی وجہ سے اپنی ماں سے کہے گا کہ تم میری محبوبہ ہو، اپنی بہن سے محبت کرنے کے سبب اپنی بہن کو بولے گا کہ تم میری محبوبہ ہو اور اپنی بیٹی سے محبت کرنے کی وجہ سے کہہ سکے گا کہ میری بیٹی میری محبوبہ ہے؟
بات دراصل یہ ہے کہ لفظِ عشق کا استعمال نیکی و بدی، دینی و دنیوی، روحانی و نفسانی، حقیقی و مجازی اور اچھے برے ہر قسم کے اس قلبی میلان کو کہا جاتا ہے جو انتہائی درجے کو پہنچ چکا ہو اور وارفتگی و دیوانگی کی حد میں داخل ہوچکا ہو، لیکن جب اس لفظ کا استعمال معظمانِ دین، مقربینِ الٰہی، انبیاء و مرسلین عليهم الصلوات و التسليمات، خصوصاً سید المرسلین، رحمة للعالمين، سیدنا محمد رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم کے ساتھ اپنی کمالِ محبت و فدائیت کے اظہار کے لیے ہوتا ہے تو وہ وجدانی و عرفانی کیفیت مراد ہوتی ہے جو صرف اور صرف روحانیات و ایمانیات سے عبارت ہوتی ہے ، اس میں نفسانی خواہشات اور شہوانی جذبات کا واہمہ اور شائبہ تک نہیں ہوتا، لہٰذا اس کیفیت و حالت کے بیان و اظہار کے لیے اسلافِ کرام، اولیاءِ عظام اور علمائے اسلام بے چون و چرا لفظِ عشق اور عاشق کا استعمال کرتے رہے ہیں.
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا :
ﷲ تعالٰی کو عاشق اور حضور پرنور سرور عالم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو اس کا معشوق کہنا جائزہے یانہیں؟
آپ جواب میں فرماتے ہیں :
"ناجائز ہے کہ معنیٔ عشق ﷲ عزوجل کے حق میں محال قطعی ہیں اور ایسا لفظ بے ورودِثبوتِ شرعی حضرت عزت کی شان میں بولنا ممنوعِ قطعی۔ردالمحتارمیں ہے:
مجردإیهام المعنی المحال کافٍ فی المنع۔
صرف معنیٔ محال کا وہم ممانعت کے لیے کافی ہے.
امام علامہ یوسف اردبیلی شافعی رحمہﷲ تعالٰی کتا ب الأنوار لأعمال الأبرار میں اپنے اور شیخین مذہب امام رافعی وہ ہمارے علمائے حنفیہ رضی ﷲ تعالٰی عنهم سے نقل فرماتے ہیں:
لوقال أنا أعشق ﷲ أویعشقنی فمبتدع و العبارۃ الصحیحة أن یقول أحبه و یحبنی کقوله تعالٰی { یُّحِبُّهمْ وَیُحِبُّوۡنَه} ۔
یعنی اگر کوئی شخص کہے کہ میں ﷲ تعالٰی سے عشق رکھتاہوں اور وہ مجھ سے عشق رکھتاہے تو وہ بدعتی ہے، لہٰذا صحیح عبارت یہ ہے کہ وہ اس طرح کہےکہ میں ﷲ تعالٰی سے محبت کرتاہوں اور وہ مجھ سے محبت فرماتا ہے، جیسا کہ ﷲ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے "ﷲ تعالٰی ان سے محبت فرماتا ہے اور وہ لوگ ﷲ تعالٰی سے محبت رکھتے ہیں".
اسی طرح امام ابن حجر مکی قدسی سرہ الملکی نے إعلام میں نقل فرما کر مقرر رکھا۔
أقول:وظاھر أن منشأ الحکم لفظ یعشقنی دون ادعائه لنفسه، ألاتری إلی قوله : "العبارۃ الصحیحة یحبنی"۔فیکون الحکم لأجل قوله یعشقنی وإلا فلا یظهر له وجه بمجرد قوله أعشقه، فقد قال العلامة أحمد بن محمد بن المنیر الإسکندری فی الانتصاف ردا علی الزمخشری تحت قوله تعالٰی فی سورۃ المائدۃ یحبهم ویحبونه بعد إثبات أن محبة العبد لله تعالٰی غیر الطاعة وأنها ثابتة واقعة بالمعنی الحقیقی اللغوی مانصه، ثم إذا ثبت إجراء محبة العبد لله تعالٰی علی حقیقتها لغة فالمحبة فی اللغة إذا تأکدت سمیت عشقا فمن تأکدت محبته لله تعالٰی وظهرت آثارتأکدھا علیه من استیعاب الأوقات فی ذکرہ وطاعته فلا یمنع أن تسمی محبته عشقا، إذ العشق لیس إلا المحبة البالغة اھ."
میں کہتا ہوں حکمِ منع کی بنیاد لفظِ یعشقنی ہے نہ کہ وہ لفظ جس میں اپنی ذات کے لیے دعویٰ عشق کیا گیا ہے، کیا تم اس قول کو نہیں دیکھتے کہ صحیح عبارت "یحبنی"ہے. پھر حکم اس کے یعشقنی کہنے کی وجہ سے ہے ورنہ اس کے صرف أعشقه کہنے سے ممانعت کی کوئی وجہ ظاہر نہیں ہوتی۔چنانچہ علامہ احمد بن محمد منیر اسکندری نے "الانتصاف"میں زمحشری کی تردید کرتے ہوئے فرمایا جو ﷲ تعالٰی کے اس ارشاد کے ذیل میں جو سورۃ مائدہ میں مذکور ہے:" یُّحِبُّهمْ وَیُحِبُّوۡنَه" ،(ﷲ تعالٰی ان سے محبت رکھتاہے اور وہ اس سے محبت رکھتے ہیں)اس بات کو ثابت کرنے کے بعد کہ بندے کا ﷲ تعالٰی سے محبت کرنا اس کی اطاعت سے الگ ہے اور محبت معنی حقیقی لغوی کے طور پر ثابت اورواقع ہے(جیسا کہ) موصوف نے تصریح فرمائی ہے، پھر جب بندے کا ﷲ تعالٰی سے محبت کرنے کا اجراء حقیقت لغوی کے طریقہ سے ثابت ہوگیا اور محبت بمعنی لغوی جب پختہ اور مؤکد ہوجائے تو اسی کو عشق کا نام دیاجایاتاہے پھر جس کی ﷲ تعالٰی سے محبت پختہ ہوجائے اور اس پر پختگی محبت کے آثار ظاہر ہوجائیں کہ وہ ہمہ وقت ﷲ تعالٰی کے ذکر وفکر اور اس کی اطاعت میں مصروف رہے تو پھر کوئی مانع نہیں کہ اس کی محبت کو عشق کہا جائے؛ کیونکہ محبت ہی کا دوسرا نام عشق ہے اھ. (فتاویٰ رضويه، جلد 21، ص 114، 115)
امام اہلِ سنت کے فتوے کا خلاصہ یہ ہوا کہ الله تعالى کو نہ عاشق کہہ سکتے اور نہ معشوق، البتہ اگر بندہ کہے مجھے الله تعالى سے عشق ہے تو اس میں شرعی خرابی نہیں ہے.
اب یہاں سے یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ عاشقِ رسول کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
اہلِ زبان یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ الفاظ کے اطلاق و استعمال میں عرف و ماحول کا اعتبار کرنا انتہائی اہم ہے، اگر عرف کا اعتبار نہ کیا جائے تو بات کچھ سے کچھ، بلکہ بہت سے فسادات کا باعث ہوسکتی ہے. الله تعالى اور اس کے رسولِ حبیب صلی الله تعالى عليه وسلم کو عاشق، یا معشوق کہنا گوکہ کسی تاویل و توجیہ کی بنیاد پر درست قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن عرب و عجم کے مسلمانوں کے عرف میں یہ استعمال کبھی تھا نہ آج، ہے، لہٰذا اس استعمال سے گریز و پرہیز ضروری ہے، البتہ الله ورسول کے محبین کے لیے لفظِ عاشق کے استعمال میں شرعاً لغةً اور عقلاً کوئی کراہت و حرج کی بات نہیں ہے. وَالـلّٰـهُ تَـعَـالٰـي أَعْـلَـمُ بِـالـصَّـوَابِ۔
كــتـــــــــــــــــــــبـــــــــــــــه الــــفـــــقـــــــيــــــر إلـــــــي ربـــــــــــــه الــــقــــديــــر : ابو الحسّان محمّد اشتیاق القادری
،94 خـادم الإفـتـاء والـقـضـاء بـــجـــامــعـة مـديـنــة الـعــــــلـم ،كـــبـــيـــــر نــگــر ،دھلی