کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ احناف کے نزدیک جس طرح نکاح سے حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے زنا اور دوائع زنا سے بھی حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے جبکہ شوافع اور مالكيه حضرات کے نزدیک زنا اور دوائع زنا سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی،
دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا کوئی حنفی حنفی رہتے ہوۓ فقط اس مسئلہ میں امام شافعی یا إمام مالك کی تقلید کر سکتا ہے اور اسے فقط اس مسئلے میں إمام شافعی یا إمام مالک کا مقلد قرار دیا جاسکتا ہے جیسا کہ الأزهر الشريف کے مفتیان کرام کا کہنا ہے یا اسے مکمل طور پر شافعی المذہب يا مالك المذهب ہو کر ہی اس مسئلہ میں امام شافعی يا إمام مالك علیهما الرحمة کی تقلید کی اجازت ہوگی؟؟؟
المستفتی: محمد أحمد زرقاني الأزهري ازھر شریف، قاہرہ، مصر
حضور تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
بــســم الــلــه الـــرحــــمــــن الــــرحــــــــــــــيــــــــــــــــــــــم
الحمد لله رب العالمين، و الصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين، و على آله و صحبه أجمعين۔
الــــجــــــواب بـــعــون الـلـه الــعـليم الـوهـاب وهـو الـمـوفـق لــلـــحـــق و الـــــــصـــــــــواب
ہمارے فقہائے احناف رحمهم الله تعالى کے نزدیک زنا اور دواعیِ زنا سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، یہی امام احمد بن حنبل رحمه الله تعالى اور ایک روایت کے مطابق امام مالک رضى الله تعالى عنه کا قول ہے۔
امام برہان الدین مرغینانی رحمه الله تعالى فرماتے ہیں
و من زنى بامرأة حرمت عليه أمها و بنتها، ومن مسته امرأة بشهوة حرمت عليه أمها و ابنتها. اھ ملخصا(الهداية، كتاب النكاح، جلد 3، 213)
وقال تحته الإمام كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسى المعروف بابن الهمام الحنفى رحمه الله تعالى
(قوله و من زنى بامرأة حرمت عليه أمها) أي و إن علت (وابنتها) و إن سفلت، وكذا تحرم المزني بها على آباء الزاني و أجداده و إن علوا، و أبنائه و إن سفلوا۔
وبقولنا قال مالك فى رواية و أحمد خلافا للشافعى و مالك فى أخرى، و قولنا قول عمر، و ابن مسعود، و ابن عباس فى الأصح، و عمران بن الحصين، و جابر ،و أبيّ، و عائشة، و جمهور التابعين كالبصرى، والشعبى، و النخعى، والأوزاعى، و طاؤس، و عطاء، و مجاهد، و سعيد بن المسيب، و سليمان بن يسار، و حماد، و الثورى، و إسحاق بن راهويه رحمهم الله جميعا۔ (فتح القدير، جلد 3، ص 210)
حرمتِ مصاہرت کے سلسلہ میں احناف کا مذہب کتاب و سنت کے دلائل و شواہد سے قریب تر اور مستحکم ہے، اس میں فتنہ و فساد سے حفاظت و احتیاط کا پہلو نمایاں ہے، اور اخلاقی اقدار کی پاکیزگی کی نمایاں ضمانت ہے، لہٰذا ضرورتِ شرعیہ یا حاجتِ شرعیہ کے بغیر کسی حنفی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ امام اعظم ابوحنیفہ رضى الله تعالى عنه کے مذہبِ مہذب و محتاط کو چھوڑ کر دوسرے کسی مذہب پر عمل کرے۔
ہاں اگر واقعی ضرورت، اور سچی حاجت درپیش ہو، خواہشِ نفس، فسادِ نیت، اور قصدِ مذموم نہ ہو تو اس مسئلۂ مصاہرت میں حنفی شخص امامِ شافعی رحمه الله تعالى کے مذہب پر عمل کرسکتا ہے، لیکن اس شخص پر لازم ہے کہ وہ اس قول کی ان تمام شرائط و قیود کا التزام کرے جو امام شافعی علیہ الرحمہ نے بیان فرمائی ہیں۔
فقیہِ اسلام، مجددِ اعظم، امام احمد رضا قادری رحمه الله تعالى فرماتے ہیں
فقد أجازوا لتحقق الضرورة الصحيحة تقليد الغير بشرائط۔
(فتاویٰ رضويه، جلد 12، ص 504)
اسی جلد کے صفحہ 510 پر فرماتے ہیں
ضرورتِ صادقہ کے وقت جو کسی مسئلہ میں ائمۂ ثلاثہ سے کسی امام کی تقلید کی جاتی ہے صرف اس مسئلہ میں اس اس کے مذہب کی رعایت امورِ واجبہ میں ضرور ہوگی، دیگر مسائل میں اپنے امام ہی کی تقلید کی جائے گی۔
امام محمد بن علی بن محمد حصکفی حنفی رحمه الله تعالى فرماتے ہیں
ولابأس بالتقليد عند الضرورة لكن بشرط أن يلتزم جميع ما يوجبه ذلك الإمام، لما قدمنا أن الحكم الملفق باطل بالإجماع۔
(الدر المختار، ص 55)
یعنی وقتِ ضرورت (دوسرے امام کی) تقلید میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ یہ شرط ہے کہ ان تمام امور کا التزام کرے جن کو اس امام نے اس عمل کے لیے لازم قراردیا ہے؛ کیونکہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ وہ حکم دو مذہبوں سے مخلوط ہو متفقہ طور سے باطل ہے۔
مفتیِ شام، علامہ شیخ عبد الرحمن بن محمد عمادی دمشقی حنفی (وصال 1051ھ) رحمه الله تعالى فرماتے ہیں
اعلم أنه يجوز للحنفى تقليد غير إمامه من الأئمة الثلاثة رضى الله تعالى عنهم فى ما تدعو إليه الضرورة، بشرط أن يلتزم جميع ما يوجبه ذلك الإمام فى ذلك، مثلا إذا قلد الشافعى فى الوضوء من القلتين، فعليه أن يراعى النية و الترتيب فى الوضوء، و الفاتحة و تعديل الأركان فى الصلاة بذلك الوضوء، وإلا كانت الصلاة باطلة إجماعا۔
(هدية ابن العماد لعباد العباد، ص 265)
یعنی حنفی وقتِ ضرورت ائمۂ ثلاثہ میں سے کسی کی بھی تقلید کرسکتا ہے، اس شرط کے ساتھ کہ ان تمام باتوں کا التزام کرے جن کو اس امام نے اس عمل کے لیے ضروری قراردیا ہے، مثلاً کوئی شخص قلتین سے وضو کرنے میں امام شافعی رحمه الله تعالى کی تقلید کرے تو اس پر لازم ہے کہ اس وضو میں نیت اور ترتیب کی بھی رعایت کرے، اور اس وضو سے جو نماز پڑھے اس میں سورۂ فاتحہ اور تعدیل ارکان کی (امام شافعی رضى الله تعالى عنه کے قول کے مطابق) رعایت کرے، ورنہ وہ نماز بالاجماع باطل قرار پائے گی۔
صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص امام شافعی رحمه الله تعالى کے مذہب پر عمل کرتا ہے تو ایسا کرنا جائز ہے، لیکن اب اس پر لازم ہے کہ اس مسئلے میں تلفیق نہ کرے، یعنی جب مذہبِ امام شافعی یا مذہبِ امام مالک رحمهما الله تعالى کے مطابق مزنیہ کے اصول و فروع میں سے کسی سے نکاح کرتا ہے تو اب اس کے لیے ضروری ہے کہ اس نکاح پر مرتب ہونے والے تمام احکام مذہبِ مالکی یا مذہبِ شافعی کے مطابق ہی اختیار کرے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ نکاح کے بعد طلاق و عدت وغیرہ احکام میں فقہِ حنفی پر عمل کرے، اگر ایسا کرتا ہے تو یہ تلفیق ہے جو قولِ مختار پر اجماعاً ناجائز و حرام ہے. البتہ وہ شخص خاص اس مسئلے میں امام مالک یا امام شافعی کی تقلید کی وجہ سے حنفیت سے خارج نہیں ہوگا۔
مفتیِ احناف، علامہ شہاب الدین سید احمد بن محمد بن اسماعیل طحطاوی مصری حنفی (وصال 1231ھ) رحمه الله تعالى فرماتے ہیں
اعلم أن تقليد الحنفى الشافعي مثلا فى مسألة عبارة عن الأخذ بقوله مع بقائه على مذهبه فى المسألة حتى لو استفتى عن خصوص هذه المسألة التى قلد فيها لايجيب السائل إلا بطبق مذهب الإمام. ومعنى بقائه على مذهبه فيها أن يكون وقت العمل بمذهب الشافعى فى المسألة التى قلده فيها باقيا على اعتقاد متابعة الإمام فى حكم المسألة التى قلد الشافعى فيها، أي بالنسبة لما عساه أن يقع له فى المستقبل۔
فإن قلت إن بقاءه على مذهبه و لايجيب إلا بقول إمامه يتضمن الرجوع عما قلده فيه. قلت الممتنع الرجوع عن تلك الواقعة المنقضية لا ما يحدث بعدها من جنسها۔
(حاشية الطحطاوى على الدر المختار، جلد 1، ص 328، دار الكتب العلمية، بيروت)
جان لیجیے کہ حنفی کا کسی مسئلے میں امام شافعی کی تقلید کرنے کا مطلب ہے کہ اس مسئلے میں اپنے مذہب پر باقی رہتے ہوئے امام شافعی کے قول کو اختیار کرنا، یہاں تک کہ اگر اس سے خاص اس مسئلے میں جس میں اس نے امام شافعی کی تقلید کی ہے استفتا کیاجائے تو اس پر لازم ہے کہ اپنے امام کے مذہب کے مطابق ہی جواب دے۔
اس مسئلے میں اپنے مذہب پر باقی رہنے کا معنی یہ ہے کہ اس مسئلے میں امام شافعی کی تقلید کرتے وقت اپنے امام کی متابعت کا اعتقاد رکھے، یعنی اگر مستقبل میں اسی قسم کا مسئلہ درپیش آیا تو وہ اپنے امام کی متابعت کرے گ۔
اگر کوئی کہے کہ اپنے مذہب پر باقی رہنے اور اپنے امام کے قول کے مطابق ہی جواب دینے کا تو مطلب یہ ہوا کہ اس نے جس مسئلے میں امام شافعی کی تقلید کی تھی اس سے رجوع کرچکا۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ خاص اس مسئلے میں جو کہ گذرچکا تقلید سے رجوع ناجائز ہے البتہ اس مسئلے کے بعد اسی قسم کے جو مسائل درپیش آئیں وہاں تقلید سے رجوع ممنوع نہیں ہے۔
امام کمال الدین محمد بن عبد الواحد سیواسی معروف بابن ہمام اسکندری حنفی رحمه الله تعالى فرماتے ہیں
لا يرجع المقلد فيما قلد فيه أي عمل به اتفاقا۔
(التحرير فى أصول الفقه، ص 551)
یعنی مقلد جس مسئلہ میں کسی کی تقلید کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہو تو بالاتفاق وہ رجوع نہیں کرسکتا۔
خلاصۂ حکم یہ ہے کہ حنفی ضرورت و حاجت کے پیشِ نظر مسئلۂ مصاہرت میں امام مالک یا امام شافعی رحمهما الله تعالى کے مذہب پر عمل کرسکتا ہے، البتہ اس پر لازم ہوگا کہ اگر وہ مزنیہ کے اصول و فروع میں سے کسی سے نکاح کرتا ہے تو اس مسئلے میں فقہ شافعی یا فقہ مالکی کی بیان کردہ شرائط و قیود کا التزام کرے۔ هذا ما عندى والعلم بالحق و الصواب عند العليم المليك الخبير. و هو سبحانه وتعالى أعلم بالصواب۔
كــتـــــــــــــــــــــبـــــــــــــــه الــــفـــــقـــــــيــــــر إلـــــــي ربـــــــــــــه الــــقــــديــــر : ابـو الـحـسَّـان مُـحَـــمَّــــد اشــــتـــيـــاق الـــقـــادري۔
خـادم الإفـتـاء والـقـضـاء بـــجـــامــعـة مـديـنــة الـعــــــلـم ،كـــبـــيـــــر نــگــر ،دهــــــــلـي 94