Tajdar-e-Khatm-e-Nabuwwat Kehna Kaisa Hai? | تاجدار ختم نبوت کہنا کیسا ہے؟

تاجدار ختم نبوت کہنا کیسا ہے ؟


کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ تاجدار خاتم النبین کہنا  کیسا ہے؟ .... قرآن و حدیث کی روشنی  میں رہنمائی فرمائی۔



الــــجــــــواب بـــعــون الـلّٰـه الــعـليم الـوهـاب وهـو الـمـوفـق لــلـــحـــق والـــــــــــصـــــــــــــواب

"تاجدارِ خاتم النبیین" ایک عجیب و اختراعی، نامانوس و ابتداعی، اور جاہلانہ و احمقانہ ترکیب و تعبیر ہے، اردو زبان و ادب میں اس قسم کی مجنونانہ ترکیبات منقول و مسموع ہیں نہ مستعمل و معتبر، البتہ اس طرح کی بات بولنے والا اگر مسلمان ہے تو ظاہر یہ ہے کہ اس کا عقیدہ ہرگز ہرگز یہ نہیں ہوگا کہ وہ مخلوقات و کائنات میں خاتم النبیین، رحمة للعالمین، شفیع المذنبین ، سیدنا محمد رسول الله صلى الله تعالى عليه و على آله و صحبه و بارك وسلم کے لیے کسی کو تاجدار و سلطان اور بادشاہ و حکمران مانتا ہو، بلکہ اس نے اس ترکیب کو اپنی جہالت و نادانی اور اردو کے اطلاقات و استعمالات سے غفلت و بے خبری کے سبب "تاجدارِ ختمِ نبوت" کے ہم معنی سمجھا اور چونکہ "خاتم النبیین" کا لفظ قرآنِ کریم میں آیا ہے تو اس نے سوچا کیوں نہ اس سے پہلے لفظِ تاجدار کا اضافہ کرکے قرآنی ترکیب کی اردو میں بہتر ترجمانی کی جائے اور منکرینِ ختمِ نبوت کا قرآنی اسلوب میں رد کیا جائے۔


اگرچہ اردو میں صفت کی جانب موصوف کی اضافت ایک عام بات ہے، مثلاً ربِّ اعلیٰ، خالقِ اکبر، رسولِ اعظم، غوثِ اعظم، امامِ اعظم، شہیدِ اعظم، قطبِ ربانی، شکلِ انسانی، صورتِ بشری، جاہلِ مطلق،وغیرہ، لیکن صفت اگر مرکبِ اضافی کی صورت میں ہو تو اس کی جانب موصوف کی اضافت اردو زبان ادب میں کبھی سنی نہ اساتذۂ زبان کے شعری یا نثری کلام میں پڑھی، مثلاً مالک الله تعالى کے اسمائے حسنی میں سے ہے، اردو زبان میں اس کی صفت مضاف الیہ کی صورت میں استعمال ہوتی ہے اور خوب ہوتی ہے مثلاً مالکِ حقیقی، لیکن یہ صفت مرکبِ اضافی کی صورت میں نہیں ہوتی، بلکہ مفرد یا شبیہِ مفرد کی صورت میں ہوتی ہے، لہٰذا اس طرح ہرگز نہیں بولا جاتا "مالکِ رب العالمین، خالقِ رب العالمین، مالکِ رزاقِ عالم، عظیمِ بادشاہِ عرب" وغیرہ، ہاں عالمِ ذی وقار، سلطانِ عالی القدر، کاتبِ عظیم الشان، وغیرہ کا اردو زبان میں استعمال عام ہے، یہاں گوکہ موصوف کی اضافت ایسی صفت کی جانب ہے جو مرکبِ اضافی ہے مگر یہاں اضافت کے معنی مراد نہیں ہوتے کہ مضاف اور مضاف الیہ میں غیریت ہو، بلکہ یہ درحقیقت شبیہِ مفرد ہے. لہٰذا "تاجدارِ خاتم النبیین" کی ترکیب لسانی نقطۂ نظر سے نامانوس و اجنبی ہے، اور اس کو صحیح و درست ٹھہرانے کے لیے "إضافة الموصوف إلى الصفة، يا إضافة الصفة إلى الموصوف" کے قاعدے کا سہارا لینا خام خیالی و خر دماغی ہے۔ وَالـلّٰـهُ تَـعَـالٰـي أَعْـلَـمُ بِـالـصَّـوَابِ۔


كــتـــــــــــــــــــــبـــــــــــــــه الــــفـــــقـــــــيــــــر إلـــــــي ربـــــــــــــه الــــقــــديــــر :‌ ابـو الـحـسَّـان مُـحَـــمَّــــد اشــــتـــيـــاق الـــقـــادري

خـادم الإفـتـاء والـقـضـاء بـــجـــامــعـة مـديـنــة الـعــــــلـم ،كـــبـــيـــــر نــگــر ،دهــــــــلـي 94۔