حضور حجۃ العلم کی بارگاہ عالی ذی وقار میں ایک مسئلہ عرض ہے کہ : اگر کسی کو نظر لگ جائے تو شریعت مطہرہ میں اس کا حل و علاج کیا ہے ؟
عوام میں کچھ اس طرح بھی مشہور ہے کہ سوکھی لال سات مرچوں پر قرآن مجید کی مخصوص سورتیں پڑھ کر دم کرتے ہیں پھر ان کو جلا دیتے ہیں اب اگر مرچوں کے جلنے کے بعد ان کی دھانس آتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نظر نہیں ہے۔ اور اگر دھانس نہیں آتی ہے تو اس کا مطلب ہے نظر تو تھی مگر اب اتر گئی اسی طرح کے اور بھی کئی ٹوٹکے وغیرہ کیے جاتے ہیں کیا یہ شرعا جائز ہیں؟ بینوا و توجروا
المستفتی : آل نبی رضوی اسحاقی پرسو پورہ رام پور یو پی۔
بــســم الــلــه الـــرحــــمــــن الــــرحــــــــــــــيـــــــــــــــــــم۔
الــــجــــــواب بـــعــون الـلـه الــعـليم الـوهـاب وهـو الـمـوفـق لــلـــحـــق و الـــــــصـــــــــواب
نظر لگنا حق اور ثابت ہے۔ بعض لوگ اس کو وھم پرستی اور محض خیال کہتے ہیں جو یقیناً غلط و باطل گمان ہے۔
حضرت ابوهریرہ رضي الله تعالي عنه فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله تعالي عليه وسلم نے ارشاد فرمایا
العين حق. (صحيح بخاري ،حديث نمبر 5740. صحيح مسلم ،حديث نمبر 5830)
نظر (لگنا) حق ہے۔
حضرت عبد الله بن عباس رضي الله تعالي عنهما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله تعالى عليه وسلم نے ارشاد فرمایا
العين حق، ولو كان شيء سابق القدر سبقته العين، و إذا استغسلتم فاغسلوا۔ (صحيح مسلم ،حديث نمبر 5831. سنن أبی داؤد، حديث نمبر 3925. جامع ترمذی، حدیث نمبر 1817)
نظر (لگنا) حق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لےجاتی تو نظر سبقت لے جاتی، اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو دھودو۔
نبی کریم صلی الله تعالى عليه وسلم نے نظر بد سے حفاظت و بچاؤ اور جس کو نظر لگ جائے اس کے علاج کے لیے متعدد دعاؤں اور دم کرنے کی مختلف صورتوں کی اجازت و رخصت عطا فرمائی ہے ،بلکہ کئی احادیثِ مبارکہ میں آپ نے دم اور جھاڑ پھونک کا حکم بھی دیا ہے۔ مندرجہ ذیل چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیے
ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله تعالي عنها فرماتی ہیں
كان رسول الله صلى الله تعالي عليه وسلم يأمرنى أن أسترقى من العين۔ (صحيح بخاري ،حديث نمبر 5738. صحيح مسلم ،حديث نمبر 5851)
یعنی رسول الله صلى الله تعالي عليه وسلم مجھے نظر لگنے کی صورت میں دم کرانے کا حکم دیتے تھے۔
حضرت زینب بنت ام سلمہ رضی الله تعالي عنها فرماتی ہیں
عن أم سلمة زوج النبى صلى الله تعالي عليه وسلم أن رسول الله صلى الله تعالي عليه وسلم قال لجارية فى بيت أم سلمة زوج النبى صلى الله تعالي عليه وسلم رأى بوجهها سفعة فقال بها نظرة فاسترقوا لها، يعنى بوجهها صفرة. (صحيح مسلم ،حديث نمبر 5854)
یعنی نبی کریم صلی الله تعالى عليه وسلم نے اپنی زوجہ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضى الله تعالى عنها کے گھر ایک بچی کو دیکھا کہ اس کے چہرے پر زردی اور روکھا پن ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا اس پر دم کراؤ؛ کیونکہ اس پر نظر کا اثر ہے۔
حضرت جابر بن عبد الله رضى الله تعالى عنهما فرماتے ہیں
رَخَّصَ النبيُّ صَلّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ لِآلِ حَزْمٍ في رُقْيَةِ الحَيَّةِ، وَقالَ لأَسْماءَ بنْتِ عُمَيْسٍ: ما لي أَرى أَجْسامَ بَنِي أَخِي ضارِعَةً تُصِيبُهُمُ الحاجَةُ قالَتْ: لا، وَلَكِنِ العَيْنُ تُسْرِعُ إليهِم، قالَ: ارْقِيهِمْ قالَتْ: فَعَرَضْتُ عليه، فَقالَ: ارْقِيهِمْ۔ (صحيح مسلم ،حديث نمبر 5855)
نبی کریم صلی الله تعالى عليه وسلم نے سانپ کے کاٹنے کی صورت میں دم کرنے اجازت دی، اور اسماء بنت عمیس سے فرمایا کہ کیا وجہ ہے کہ میں اپنے بھتیجوں (حضرت جعفر بن ابوطالب کے بیٹوں) کے جسم کمزور دیکھ رہا ہوں؟ کیا وہ بھوکے رہتے ھیں؟ حضرت اسماء نے عرض کی نہیں، لیکن ان کو نظر جلد لگ جاتی ہے، آپ نے ارشاد فرمایا ان کو دم کردو، حضرت اسماء فرماتی ہیں میں نے دم کے کچھ کلمات پیش کیے تو ارشاد فرمایا انہیں دم کردو۔
ام المومنین سیدتنا عائشه صديقه رضى الله تعالى عنها فرماتی ہیں
كان يؤمر العائن فيتوضأ ثم يغسل منه المعين. (سنن أبي داؤد ،حديث نمبر 3882)
نظر لگانے والے کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ وضوء کرے پھر اس کے وضوء کے پانی کو اس شخص پر بہایا جائے جس کو نظر لگی ہے۔
نظر بد کا یہ علاج اس صورت کے ساتھ خاص ہے جب کہ معلوم ھو کہ کس کی نظر لگی ہے، چنانچہ ایک حدیث شریف میں ہے
حضرت سہل بن حنیف رضى الله تعالى عنه بیان کرتے ہیں
أنَّ رسولَ اللهِ ﷺ خرَجَ، وسارُوا معه نحوَ مكَّةَ، حتى إذا كانوا بشِعْبِ الخَرّارِ مِن الجُحْفةِ، اغتسَلَ سَهْلُ بنُ حُنَيفٍ، وكان رجُلًا أبيضَ، حسَنَ الجسمِ والجِلْدِ، فنظَرَ إليه عامرُ بنُ ربيعةَ أخو بني عَدِيِّ بنِ كَعْبٍ وهو يغتسِلُ، فقال: ما رأَيْتُ كاليومِ ولا جِلْدَ مخبَّأةٍ، فلُبِطَ بسَهْلٍ، فأُتِيَ رسولُ اللهِ ﷺ، فقيل له: يا رسولَ اللهِ، هل لك في سَهْلٍ؟ واللهِ، ما يَرفَعُ رأسَهُ، وما يُفِيقُ، قال: هل تتَّهِمون فيه مِن أحدٍ؟ قالوا: نظَرَ إليه عامرُ بنُ ربيعةَ، فدعا رسولُ اللهِ ﷺ عامرًا، فتغيَّظَ عليه، وقال: علامَ يقتُلُ أحدُكم أخاه؟ هلّا إذا رأَيْتَ ما يُعجِبُك برَّكْتَ؟ ثمَّ قال له: اغتسِلْ له، فغسَلَ وجهَهُ ويدَيْهِ، ومَرْفِقَيْهِ ورُكْبتَيْهِ، وأطرافَ رِجْلَيْهِ، وداخلةَ إزارِهِ في قَدَحٍ، ثمَّ صَبَّ ذلك الماءَ عليه، يصُبُّهُ رجُلٌ على رأسِهِ وظَهْرِهِ مِن خَلْفِهِ، يُكفِئُ القَدَحَ وراءَهُ، ففعَلَ به ذلك، فراح سَهْلٌ مع الناسِ ليس به بأسٌ۔ (مسند أحمد بن حنبل ،حديث نمبر 16023)
ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ھوئے، جب جحفہ کی وادیِ خرار میں پہنچے تو حضرت سہل بن حنیف رضى الله تعالى عنه غسل کے ارادے سے نکلے، وہ بہت گورے، جسم حسین اور جلد خوبصورت تھی، دورانِ غسل حضرت عامر بن ربیعہ رضى الله تعالى عنه کی نظر ان کے جسم پر پڑگئی، اور بول اٹھے کہ میں نے آج تک ایسی حسین جلد نہیں دیکھی، یہ کہنے کی دیر تھی کہ حضرت سہل گر پڑے، ایک صاحب بارگاہِ نبوت میں حاضر ھوکر عرض گزار ھوئے یا رسول الله! سہل کا کچھ کیجیے، والله! وہ سر اٹھا رھے ھیں نہ انہیں ھوش آرھا ھے. نبی کریم ﷺ نے فرمایا تمہارے نزدیک اس کے موردِ الزام کون ھے؟ صحابۂ کرام نے عرض کی کہ انہیں عامر بن ربیعہ نے دیکھا تھا، نبی کریم ﷺ نے عامر کو بلا کر اظہارِ جلال فرمایا اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو کیوں قتل کرتا ھے؟ جب تمہیں کوئی تعجب خیز چیز نظر آئے تو وہ اس کے لیے برکت کی دعا کیوں نہیں کرتا؟ پھر ان کو اپنے اعضاء دھونے کیا حکم دیا، چنانچہ انہوں نے ایک پیالے میں اپنا چہرہ، ھاتھ، کہنیاں، گھٹنے، پاؤں کے حصے اور تہبند کے اندر سے دہویا، پھر حکم دیا کہ یہ پانی سہل پر بہایا جائے، وہ اس طرح کہ ایک آدمی اب کے سر پر پانی ڈالے اور پیچھے سے کمر پر ڈالے اس کے بعد پورا پیالہ اس پر انڈیل دے، جب اس کے مطابق کیا گیا تو حضرت سہل لوگوں کے ساتھ اس طرح چلنے لگے جیسے انہیں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔
حضرت عبد الله بن عباس رضي الله تعالي عنهما فرماتے ہیں
كان رسول الله صلى الله تعالي عليه وسلم يعوذ الحسن و الحسين يقول : أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ. و يقول هكذا كان إبراهيم يعوذ إسحاق و إسماعيل عليهم السلام۔ (صحيح بخاري ،حديث نمبر 3372. سنن أبی داؤد ،حديث نمبر 4739. سنن ابن ماجه، حديث نمبر 3525. مسند أحمد بن حنبل ،حديث نمبر 2112. جامع ترمذى ،حديث نمبر 2201 ،و اللفظ للترمذى)
یعنی رسول الله صلى الله تعالي عليه وسلم حسنین کریمین کو اس طرح دم فرماتے تھے (أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ) اور اس کے بعد ارشاد فرماتے تھے کہ حضرت ابراھیم اپنے دونوں بیٹوں حضرت اسحاق اورحضرت اسماعیل عليهم السلام کو اسی طرح دم فرماتے تھے۔
ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله تعالي عنها فرماتی ھیں کہ جب رسول اکرم صلى الله تعالى عليه وسلم بیمار ھوتے تو حضرت جبریل امین علیه الصلاة و السلام اس طرح دم فرمایا کرتے تھے:
بسم الله يٗبرِيكَ و من كل داء يشفيك، و من شر حاسد إذا حسد، و شر كل ذى عين۔ (صحيح مسلم ، 5828)
حضرت ابو سعید خدری رضى الله تعالى عنه کی روایت میں دم کے الفاظ اس طرح مروی ہیں:
بسم أَرقيك من كل شيء يؤذيك، من شر كل نفس، أو عين حاسد، اللهُ يشفيك باسم الله أرقيك۔ (صحيح مسلم ،حديث نمبر 5829)
ان کے علاوہ بھی احادیث و آثار و اخبار میں نظر بد سے علاج کے لیے بہت سی دعائیں، کلمات، اوراد، اذکار اور وظائف مذکور ہیں، و فى ما ذكرناه كفاية لمن استمع من إخوتنا المؤمنين۔
سوکھی ھوئی لال مرچوں پر قرآنِ کریم کی کچھ آیات مبارکہ، یا احادیثِ مبارکہ میں مذکور دعائیں پڑھ کر دم کرنا اور منظور (جس کو نظر لگی ھو) پر پھیر کر آگ میں جلادینا شرعاً جائز و درست ھے ؛کیونکہ اس میں خلافِ شرع کوئی بات موجود نہیں ھے، اور شریعتِ مطہرہ جب تک کسی عمل سے منع نہ فرمائے اسے اپنی طبیعت سے ناجائز کہنا شریعت پر افتراء ہے۔
مرچوں کے ذریعہ نظر اتارنے کا یہ طریقہ صرف عوام ھی میں مشہور نہیں، بلکہ کئی اسلاف کرام سے بھی منقول و ماثور ہے۔
کچھ لوگ اپنی عقل کے بے جا دخل کی وجہ سے مرچوں کے ذریعہ نظر اتارنے کو اسراف و اضاعتِ مال قرار دیتے ھیں جو غلط اور نادانی ھے؛ کیونکہ یہاں مرچوں کو انسان کے فائدے اور نفع کے لیے صرف کیا جارھا ھے اور قابلِ انتفاع چیزوں کو دوسرا فائدہ حاصل کرنے کے لیے صرف کرنا شرعاً عقلاً عرفاً یقیناً جائز ہے۔ البتہ افضل و احسن یہی ھے کہ نظر کے علاج کے لیے کتاب و سنت میں جو دعائیں ارشاد فرمائی گئی ھیں انہیں سے علاج کیا جائے۔ والله تعالي أعلم بالصواب۔
كــتـــــــــــــــــــــبـــــــــــــــه الــــفـــــقـــــــيــــــر إلـــــــي ربـــــــــــــه الــــقــــديــــر : أبـو الـحـسَّـان مُـحَـــمَّــــد اشــــتـــيـــاق الـــقـــادري۔
خـادم الإفـتـاء والـقـضـاء بـــجـــامــعـة مـديـنــة الـعــــــلـم ،كـــبـــيـــــر نــگــر ،دهــــــــلـي 94