Bijali Ki Chori Karna Kaisa hai?| بجلی کی چوری کرنا کیسا ہے؟

بجلی کی چوری کرنا کیسا ہے؟
مسئلہ:بجلی کی چوری کرنا کیسا ہے؟

سوال:  کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ مسجد و مدرسہ میں جو بجلی کا میٹر ہوتا ہے، کیا اس کا بل کم آنے کے لیے کچھ کیا جا سکتا ہے؟ یعنی بجلی کے میٹر میں کوئی چیز، تار وغیرہ ادھر ادھر کروا سکتے ہیں تاکہ بجلی کا بل کم آئے اور مسجد و مدرسہ پر اس کا بوجھ نہ ہو۔ کیا اس طرح کرنا حکومت کی چوری ہوگی یا نہیں؟ مزید یہ کہ موجودہ محکمہ کفار و مشرکین کے ہاتھ میں ہے، کیا ان کے ساتھ اس طرح کی چوری روا ہے یا نہیں؟

المستسفی؛

بسم الله الرحمن الرحیم 

 الجواب 

مسجد کے لیے ہو یا اپنے گھر کے لیے، بجلی کا بل کم آنے کے لیے ایسا کرنا حرام ہے۔


حدیث شریف میں ہے: "لا تغلوا ولا تمثلوا ولا تغدروا" (السنن الكبرى: ۴۹/۹)

مال غنیمت سے چوری مت کرو، دشمن اسلام پر میدان جنگ میں غالب آؤ تو ان کی ناک کان وغیرہ کاٹ کر ان کی صورت نہ بگاڑو اور کسی کو دھوکہ نہ دو۔ اور میٹر میں کچھ ادھر ادھر کر کے خرچ شدہ بجلی کی مقدار کم ظاہر کرنا دھوکہ ہے اور کمپنی کے غیر مسلم ہونے کا عذر بے کار ہے، کیونکہ دھوکہ ان کے ساتھ بھی منع ہے۔ ہدایہ میں ہے

"ان مالهم مباح في دارهم فبأي طريق أخذه المسلم أخذ مالاً مباحاً إذا لم يكن فيه عذر" (ہدایة: باب الربا، ۷۰/۲)

غیر مسلم کا مال بھی دھوکہ سے لینا منع ہے اور اس میں رشوت بھی شامل ہے کیونکہ ریڈنگ نوٹ کرنے والے کرمچاری کو ملائے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا اور وہ جیب گرم کئے بغیر راضی نہیں ہوگا۔


فتاوی رضویہ میں ہے

"رشوت لینا مطلقاً حرام ہے اور جو بھی کسی کو اپنا حق دبانے کے لیے یا اپنا کام نکالنے کے لیے دے، وہ رشوت ہے۔"

صورتِ مسئولہ میں کمپنی کا حق دبانے کے لیے لائن مین کو روپیہ دینا یا اس سے اپنا کام بنانے کے لیے پیسہ دینا دونوں ہی رشوت ہیں۔


پھر مسجد کا جو پیسہ اس طرح بچایا جائے، وہ خرچ مسجد میں ہی تو کریں گے۔ ایسا ناجائز  پیسہ مسجد میں کیسے صرف ہو سکتا ہے؟ شامی میں ہے

"إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا"

اللہ تعالی پاک ہے اور اپنے گھر کے لیے صرف پاک رقم ہی قبول کرتا ہے۔

ولله تعالى اعلم
المجيب: عبد المنان اعظمی شمس العلوم گھوسی مئو ٢٩/محرم الحرام ١٤٧ھ

[فتاویٰ بحر العلوم ، جلد ١، ص ٤٠/٤١]