Lafz "Subhan" ki Tehqiq | لفظ سُبْحٰن کی تحقیق

لفظ سبحان کی تحقیق

لفظ سُبْحٰن کی تحقیق 


حضور! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ اللہ کریم آپ کو خوش وخرم رکھے۔

حضور! آپ کے سابقہ جوابات کافی تسلی بخش تھے مثلاً آپ نے فرمایا کہ شیخ سعدی کے شعر میں سبحان کا مضاف الیہ محذوف ہوگا۔ یہ جواب معقول ہے اس لئے کہ سبحان کا مضاف الیہ کبھی حذف کردیا جاتا ہے۔ روح المعانی میں ہے: قال الرضي: لا مانع من أن يقال في البيت الذي استدلوا به: حذف المضاف إليه وهو مراد للعلم به“ 

لیکن ابھی مزید کچھ باتیں سمجھنی ہیں۔ ایک یہ کہ لفظ سبحان کو علم للتنزیہ مانیں یا رب تعالی کا صفاتی نام بہرصورت یہ تو یقینی بات ہے کہ اس لفظ کا اطلاق رب تعالی کے ساتھ خاص ہے۔ اعراب القرآن میں ہے: ولذا لا يستعمل إلا فيه تعالىروح المعانی میں ہے: ” لم يجز استعماله إلا فيه تعالى أسماؤه وعظم كبرياؤه“ تو اس لحاظ سے بھی اس لفظ کو  کسی بندے کے علم کے طور پر ممنوع ہونا چاہئے۔ یہاں ایک اور خیال بھی ذہن میں آتا ہے کہ کسی بندے  کا نام سبحان رکھنے کی صورت میں مسمی کی طرف اضافت کا ایہام ہوگا لیکن اس کو بطور اشکال ذکر اس لئے نہیں کررہا کہ یہاں ایہام بمعنی متبادر الی الفہم کا ثبوت غالبا نہیں ہوسکتا ہاں احتمال ضرور ہے لیکن معنی ممنوع کا احتمال نام رکھنے کی ممانعت کےلئے کافی نہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے فرمایا تھا کہ مصدر نام نہیں ہوسکتا کہ نام وہ لفظ ہوتا ہے جو وصف مع الذات پر دلالت کرے جیسے اسم فاعل، اسم مفعول وغیرہ جبکہ مصدر صرف وصف پر دلالت کرتا ہے۔ اس حوالے سے اشکال یہ ہے کہ مصدر اسم فاعل کے معنی میں بہت مقامات پر استعمال ہوتا ہے تو کیا یہ ممکن نہیں کہ شیخ سعدی رحمہ اللہ وغیرہ بزرگان دین کی عبارات میں لفظ سبحان کا جو اللہ تعالی پر اطلاق آیا ہے یہ بطور اسم ہو اور اس صورت میں سبحان بمعنی اسم فاعل ہو یعنی وہ جو تمام نقائص سے پاک اور منزہ ہے۔ اس کی نظیر لفظ فرقان ہے کہ وہ مصدر ہے لیکن قرآن مجید کا نام بھی ہے بمعنی اسم فاعل یا اسم مفعول۔ اعراب القرآن وبیانہ میں ہے: ” (الْفُرْقانَ) : القرآن لأنه فرق بين الحق والباطل وقيل لأنه نزل مفرقا في أوقات كثيرة وفي المصباح: «فرقت بين الشيئين فرقا من باب قتل فصلت أبعاضه وفرقت بين الحق والباطل، فصلت أيضا، هذه هي اللغة العالية وبها قرأ السبعة في قوله تعالى: «فَافْرُقْ بَيْنَنا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْفاسِقِينَ» وفي لغة من باب ضرب وقرأ بها بعض التابعين، وقال ابن الأعرابي: فرقت بين الكلامين فافترقا مخفف، وفرقت بين العبدين فتفرقا مثقل فجعل المخفف في المعاني والمثقل في الأعيان. والذي حكاه غيره أنهما بمعنى والتثقيل مبالغة» ولهذه المادة في اللغة شعاب كثيرة، وسنورد لك منها ما يروق الخاطر: فالفرقان مصدر فرق بين الشيئين إذا فصل بين الشيئين وسمي به القرآن لفصله بين الحق والباطل أو لأنه لم ينزل جملة واحدة ولكن مفروقا مفصولا بين بعضه وبعض في الإنزال، ألا ترى إلى قوله: «وقرآنا فرقناه لتقرأه على الناس على مكث ونزلناه تنزيلا» والأظهر هو المعنى الثاني لأن في السورة بعد آيات: «وقال الذين كفروا لولا نزلوا عليه القرآن جملة واحدة كذلك لنثبت به فؤادك»“

ان اشکالات کا بھی ازالہ ہوجائے تونوازش ہوگی۔

المستفتی: (مفتی) سید محمد یونس پاکستان

    

بــســم الــلــه الـــرحــــمــــن الــــرحــــــــــــــيــــــــــــــــــــــم


الــــجــــــواب بـــعــون الـلـه الــعـليم الـوهـاب وهـو الـمـوفـق لــلـــحـــق و الـــــــصـــــــــواب


           :لفظِ ســبـحــان کی تحقیق

عربی زبان و ادب کے ائمہ و اساطین کے مطابق لفظِ ســبـحــان تین طرح استعمال کیا جاتا ہے 


١:  بطورِ مضاف منصوب

کتاب و سنت ،اذکار و اوراد، وظائف و معمولات، اور ادعیہ و مناجات وغیرہ میں عموماً کلمۂ ســبـحــان مضاف اور فعلِ مقدر (جس کا اظہار متروک ہے) کا مفعولِ مطلق ہونے کی وجہ سے منصوب ہی استعمال کیا جاتا ہے۔


:جیسے رب کریم ارشاد فرماتا ہے 

قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ۔ (سورة البقرة، آية 32)

(فرشتے)عرض گزار ہوئے پاکی ہے تجھے ۔ ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھایا، بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔


سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ. (سورة الإسراء، آية1)

پاکی ہے اسے جس نے اپنے بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجدِ حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی سننے دیکھنے والاہے۔


وَ رَبُّكَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ. (سورة القصص، آية 68)

اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور (جسےچاہتا ہے) چن لیتا ہے، ان  (مشرکوں ) کا کچھ اختیار نہیں۔ الله کے لیے ان کے شرک سے پاکی و برتری ہے ۔


سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَۚ. (سورة الصافات، آية 180)

پاکی ہے آپ کے رب لیے جو عزت والا رب ہے ان (مشرکین) کی باتوں سے۔


وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ. (سورة الأنبياء، آية 26)

اور (کافر) بولے رحمٰن نے اولاد بنالی، پاکی ہے اس کو، بلکہ (فرشتے)  معزز بندے ہیں۔


مذکورہ تمام آیاتِ مبارکہ میں لفظِ ســبـحــان کا مضاف منصوب ہونا ظاہر ہے۔


٢:  بغیر اضافت کے غیر منصرف

اس صورت میں لفظِ ســبـحــان غیر منصرف اور مقطوعِ اضافت ہوتا ہے۔


زمانۂ جاہلیت کا مشہور شاعر اعشی کبیر، میمون بن قیس بن جندل کہتا ہے 

[أقول لما جاءنى فخره،  سبحان من علقمة الفاخر] 

(ديوان الأعشى الكبير، ص 348)


یہاں اعشی نے سبحان کو بغیر اضافت کے منصوب بلاتنوین استعمال کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ لفظِ ســبـحــان اس صورت میں اہلِ عرب کے یہاں غیر منصرف ہوتا ہے۔


٣:   بغیر اضافت کے منصرف

زمانۂ جاہلیت ہی کا دوسرا بڑا شاعر امیہ بن عبد الله ابو الصلت کہتا ہے

[سبحانه ثم سبحانا نعوذ به،  وقبلناسبح الجودى و الجمد]

(ديوان أمية بن أبى الصلت، ص 3)


یہاں امیہ بن ابو الصلت لفظِ ســبـحــان کو اضافت اور بغیر اضافت دونوں طرح استعمال کیا ہے۔


لفظِ ســبـحــان کی کیفیتِ استعمال کے بعد ائمۂ لغت و ادب اور مفسرین و اہلِ علم کے نزدیک نحوی و معنوی اعتبار سے اس میں تین احتمال ہیں ؛


  ١مصدر، ٢  اسم مصدر، ٣  علم مصدر

چنانچہ قاضی ناصر الدین ابو سعید عبد الله بن عمر شيرازى بيضاوى   (وصال 791ھ) رحمه الله تعالى تحریر فرماتے ہیں 

سبحان مصدر كغفران، و لايكاد يستعمل إلا مضافا منصوبا بإضمار فعله كمعاذ الله،  و قد أجرى علما للتسبيح بمعنى التنزيه على الشذوذ فى قوله سبحان من علقمة الفاخر۔ (أنوار التنزيل، جلد 1، ص 85)


یہی امام بیضاوی سورۃ الإسراء کی پہلی آیت کے تحت رقم فرماتے ہیں 

سبحان اسم بمعنى التسبيح مرحبا الذى هو التنزيه، و قد يستعمل علما له فيقطع عن الإضافة و يمنع عن الصرف۔ قال: [فخره قد قلت لما جاءنى،   سبحان من علقمة الفاخر]   و انتصابه بفعل متروك إظهاره۔  (تفسير البيضاوى، جلد 2، ص 289)


امام بیضاوی رحمه الله تعالى کی مذکورہ دونوں تصریحات کا حاصل یہ ہے کہ لفظِ ســبـحــان میں مصدر، اسمِ مصدر اور علمِ مصدر تینوں احتمالات ہیں، البتہ اغلب و اکثر استعمالات میں سبحان مصدر و مضاف اور ایسے فعل کی وجہ سے منصوب ہوتا ہے جس کا ذکر و اظہار وجوبی طور سے متروک ہے، نیز لفظِ ســبـحــان کو جو بعض حضرات نے تسبیح و تنزیہ کا علم قرار دیا ہے یہ قول شاذ ہے۔


:مصدر، اسمِ مصدر اور علمِ مصدر کی وضاحت 

:١۔المصدر 

هو الاسم الذى يدل على الحدث المجرد، ويشتمل على كل الحروف الأصلية و الزائدة التى يشتمل عليها الفعل الماضى المأخوذ منه. (النحو الوافي، جلد 3، ص 207)


:وبعبارة أخرى

هو اسم للحدث الجارى على الفعل۔

(الكافية لابن الحاجب، و شرح شذور الذهب لابن هشام المصرى)

ومعنى الجارى على الفعل أن يقع بعد اشتقاقه منه تأكيدا له أو بيانا لنوعه أو عدده۔

یعنی مصدر وہ اسم ہے جو محض حدث پر دلالت کرے اور اپنے فعلِ ماضی کے تمام حروف کو لفظاً یا تقدیراً یا عوضاً مشتمل ہو.جیسے علم علما ،قاتل قتالا، وعد عدة، سلم تسليما۔


:٢۔  اسمِ المصدر 

هو الاسم الذى يساوى المصدر فى الدلالة على معناه الذى وضع له، و خالف المصدر بخلوه و نقصانه من بعض حروف الفعل لفظا أو تقديرا من دون تعويض. كما فى قول الله عزوجل

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا۔ (28)


"أسرح" کا مصدر تسریح ہے، لیکن یہاں اس کی تاکید سراح سے لائی گئی ہے جو کہ اسمِ مصدر ہے۔


علامہ جلال الدين سیوطی رحمه الله تعالى مصدر اور اسمِ مصدر کا فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں 

قال الشيخ بهاء ابن نحاس : الفرق بينهما (المصدر و اسم المصدر) أن المصدر فى الحقيقة هو الفعل الصادر عن الإنسان و غيره، كقولنا إن (ضربا) مصدر فى قولنا يعجبنى ضرب زيد عمروا، فيكون مدلوله معنى، و سموا ما يعبر به عنه مصدرا مجازا نحو (ض ر ب) فى قولنا إن ضربا مصدر منصوب إذا قلت ضربت ضربا فيكون مسماه لفظا، واسم المصدر اسم للمعنى الصادر عن الإنسان و غيره كسبحان المسمى به التسبيح الذى هو صادر عن المسبح لا لفظ (ت س ب ي ح) بل المعنى المعبر عنه بهذه الحروف و معناه البراءة و التنزيه۔


وقال ابن الحاجب في (أماليه) : الفرق بين قول النحويين ، مصدر واسم مصدر ، أنّ المصدر الذي له فعل ، يجري عليه ، كالانطلاق في انطلق ، واسم المصدرهو اسم المعنى ، وليس له فعل يجري عليه كالقهقرى ، فإنه لنوع من الرجوع ، ولا فعل له يجري عليه من لفظه. وقد يقولون : مصدر واسم مصدر في الشيئين المتغايرين لفظا : أحدهما للفعل والآخر للآلة التي يستعمل بها الفعل كالطّهور والطّهور ، والأكل والأكل. فالطّهور المصدر ، والطّهور اسم ما يتطّهر به ، والأكل المصدر ، والأكل كلّ ما يؤكل. (الأشباه و النظائر، جلد 3، ص 234، 235)


:٣۔  علم المصدر 

علمِ مصدر در حقیقت کوئی مستقل مصطلح نہیں ہے، بلکہ یہ اسمِ مصدر ہی کی ایک صورت ہے، نحوی حضرات اس کو اسمِ جنس بھی کہتے ہیں، چنانچہ علامہ ابن ہشام مصری رحمه الله تعالى لکھتے ہیں 

الاسم الدال على مجرد الحدث إن كان علما كفجار، و حماد، للفجرة و المحمدة،........... فهو اسم مصدر۔

واسم المصدر إن كان علما لم يعمل اتفاقا. اھ ملتقطا

(أوجز المسالك، جلد 3، ص 209)


:اور یہی ابن ہشام مصری شرح شذور الذهب میں لکھتے ہیں 

اسم المصدر يطلق على ثلاثة أمور : أحدها ما يعمل اتفاقا، و هو ما بدئ بميم زائدة لغير المفاعلة كالمضرب و المقتل، وذلك لأنه مصدر في الحقيقة۔

والثانى ما لا يعمل اتفاقا، وهو ما كان من أسماء الأحداث علما كسبحان علما للتسبيح، و فجار و حماد علمين للفجرة و المحمدة

والثالث ما اختلف فى إعماله وهو ما كان اسما لغير الحدث، فاستعمل له، كالكلام، فإنه فى الأصل اسم للملفوظ به من الكلمات، ثم نقل إلى معنى التكليم، و الثواب، فإنه فى الأصل اسم لما يثاب به العمال، ثم نقل إلى معنى الإثابة۔


:یہ جان لینا بھی مفید ہے کہ علم کی دو اقسام ہیں 

١۔ علم شخصی، ٢۔  علم جنسی


علمِ شخصی وہ اسم ہے جو اپنی وضع کے اعتبار سے کسی متعین ذات پر دلالت کرے اور اس جہت سے کسی اور کو شامل نہ ہو، جیسے خالد، مکہ۔

علمِ شخصی لفظ و معنی دونوں اعتبار سے معرفہ ہوتا ہے۔


علمِ جنسی وہ اسم ہے جو کسی چیز کے ذہنی وجود کو متعین کرے اور خارجی افراد سے قطع نظر کرتے ہوئے پوری ماہیت اور مکمل جنس پر دلالت کرے.جیسے اسامہ، فجار، سبحان۔

علمِ جنسی لفظ کے اعتبار سے تو معرفہ شمار ہوتا ہے، لیکن معنی کے اعتبار سے نکرہ ہوتا ہے۔


:علامہ ابن حاجب رحمه الله تعالى فرماتے ہیں 

العلم : ما وضع لشيء بعينه غير متناول غيره بوضع واحد.(الكافية، ص 125)


:علامہ ابن ہشام مصری رحمه الله تعالى فرماتے ہیں 

العلم، و هو شخصى إن عين مسماه مطلقا كزيد، و جنسى إن دل بذاته على ذى الماهية تارة و على الحاضر أخرى كأسامة. (شرح شذور الذهب ،ص 171)


:اور "أوجز المسالك، جلد 1، ص 132، 133" پر لکھتے ہیں 

العلم الجنسى اسم يعين مسماه بغير قيد تعيين ذى الأداة الجنسية أو الحضورية. و هذا العلم يشبه علم الشخص من جهة الأحكام اللفظية، فإنه يمتنع من ال، و من الإضافة و من الصرف إن كان ذا سبب آخر، و يشبه النكرة من جهة المعنى، لأنه شائع فى أمته لايختص به واحد دون آخر۔


و مسمى علم الجنس ثلاثة أنواع 

أحدها : وهو الغالب أعيان لا تؤلف كالسباع و الحشرات كأسامة و ثعالة و أبي جعدة للذئب، وأم عريط للعقرب

و الثانى : أعيان تؤلف، كهيان بن بيان للمجهول العين و النسب، و أبى المضاء للفرس، و ابي الدغفاء للأحمق

والثالث : أمور معنوية كسبحان للتسبيح، و كيسان للغدر، و يسار للميسرة، و فجار للفجرة، و برة للمبرة


عظیم مفسر علامہ نظام الدین حسن بن محمد بن حسین نیشاپوری (وصال 850ھ تقریبا) رحمه الله تعالى {سُبْحٰنَكَ} کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں

معنى سبحنك نسبحك تسبيحا، أي ننزهك تنزيها وهو مصدر غير متصرف أي لا يستعمل إلا محذوف الفعل منصوبا على المصدرية، فإذا استعمل غير مضاف كان سبحان علما للتسبيح، فإن العلمية كما تجري فى الأعيان تجرى فى المعانى

(تفسير غرائب القرآن و رغائب الفرقان، المعروف بتفسير النيسابورى، جلد 1، ص 223)


امام نیشاپوری کی عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ سبحان تنزیہ کے معنی میں مصدرِ غیر متصرف ہے جس کا فعل ہمیشہ محذوف رہتا ہے اور یہ مفعولِ مطلق ہونے کی وجہ سے منصوب ہوتا ہے۔

اور اگر سبحان کو بغیر اضافت کے استعمال کیا جائے تو یہ تسبیح کا علم ہوتا ہے (الله تعالى کی ذات کا علم نہیں ہوتا ہے جیسا کہ کچھ لوگوں کو دھوکہ لگا ہے. قادری) ،کیونکہ علمیت جس طرح ذوات و اشخاص کے لیے ہوتی ہے اسی طرح معانی و مفاہیم کے لیے بھی ہوتی ہے۔


اس تمہیدی گفتگو کے بعد آپ کے اشکالات کے جوابات حاضر خدمت ہیں 

:ازالۂ اوہام 


:پہلا وہم 

لفظِ ســبـحــان کو علم للتنزیه مانیں یا الله تعالى کا صفاتی نام بہر صورت یہ تو یقینی بات ہے کہ اس لفظ کا اطلاق رب تعالی کے ساتھ خاص ہے........... تو اس لحاظ سے بھی اس لفظ کو کسی بندے کے علم کے طور پر ممنوع ہونا چاہیے۔


:ازالہ 

پہلی بات تو یہ ذہن نشین فرمالیجیے کہ لفظِ ســبـحــان ہرگز ہرگز الله تعالى کا کوئی ذاتی نام ہے نہ صفاتی نام، جو لوگ لفظِ ســبـحــان کو الله تعالى کا ذاتی یا صفاتی نام سمجھتے ہیں یہ ان کا زعمِ فاسد، خیال خام اور محض از قبیلِ اوہام ہے، لہٰذا یہ شق باطل و مردود ہے اور اس کی وجہ سے کسی بندے کا نام سبحان رکھنے کے عدمِ جواز کا جو دروازہ کھولا گیا وہ مسدود، اور ممانعت کا حکم غلط و مطرود ہے ۔


رہی دوسری بات کہ سبحان علمِ تسبیح و تنزیہ ہے، تو یہ بات کسی حد تک درست ہے؛ کیونکہ بعض اہلِ علم و مفسرین نے لفظِ ســبـحــان کو علمِ تسبیح قراردیا ہے، لیکن اس لفظ کے علمِ تسبیح و تنزیہ ہونے سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ یہ لفظ کسی بندے کا علم نہیں ہوسکتا؟ یہ دعویٰ بلادلیل اور خالص وہمِ ذلیل ہے۔


آپ کی یہ یقینی بات کہ اس لفظ کا اطلاق رب تعالی کے ساتھ خاص ہے اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ آپ سے "اطلاق" کا معنی و مفہوم سمجھنے میں زبردست چوک ہوئی ہے۔


اردو زبان میں اطلاق کے دو معنی ہیں : نمبر ایک استعمال کرنا، اور نمبر دو ایک چیز کا دوسری چیز پر محمول کرنا، لہٰذا لفظِ ســبـحــان کا اطلاق اس معنی کے اعتبار سے تو قطعاً رب تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے کہ سبحان صرف اور صرف رب کریم کی تسبیح و تنزیہ اور تمام عیوب و نقائص سے براءت ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، کسی اور کی پاکی و براءت ظاہر کرنے کے لیے اس کا استعمال و اطلاق نہیں کیا جاتا، بلکہ بلکہ دوسرے کسی بھی شخص کی عیب و نقص سے براءت ظاہر کرنے کے لیے لفظِ ســبـحــان کا اطلاق و استعمال ناجائز و ممنوع ہے، یہاں تک کہ اشرف الانبیاء و المرسلین، امام الاولین و الآخرين، سید المعصومين، حضور پر نور، سیدنا محمد رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم جو قطعاً یقیناً ہر نقص و عیب، قصور و فتور، اور کوتاہی و کمی سے پاک و منزہ، مقدس و مطہر، اور مبرا و معرا ہیں، مگر اس کے باوجود ہم اپنے آقائے کریم صلى الله تعالى عليه وسلم کی براءت و نزاہت اور طہارت و تقدس کو بیان کرنے کے لیے یوں نہیں کہہ سکتے 

سبحان الرسول النبی الأمی محمد صلى الله تعالى عليه وسلم عن ما يقول الكافرون و المشركون۔

سبحانك يارسول الله، سبحانك یا حبيب الله، سبحان أفضل المرسلين، سبحان إمام الأولين والآخرين۔


کیونکہ شرعاً یہ بات طے شدہ اور متفق علیہ ہے کہ لفظِ ســبـحــان سے صرف اور صرف رب کریم و قدیر کی ہی تسبیح و تنزیہ  بیان کی جائے گی۔


لیکن اس استعمال و اطلاق کے رب تعالیٰ کے ساتھ خاص ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ لفظِ ســبـحــان کسی بندے کا علم نہیں ہوسکتا؛ کیونکہ سبحان جس کا معنی تسبیح و تنزیہ ہے یہ الله تعالى کی کوئی صفت نہیں، بلکہ عبادت کی ایک صورت ہے، یعنی عبادت کی ہزارہا صورتوں میں سے ایک صورت تسبیح بھی ہے، لہٰذا جس طرح کسی بھی بندے کا نام عبادت رکھنا جائز و درست ہے اسی طرح کسی بھی بندے کا نام سبحان، یا تسبیح رکھنا بھی بلاشبہ جائز و درست ہے،تو جب لفظِ عبادت کے اطلاق و استعمال کا الله تعالى کے ساتھ خاص ہونا مانعِ علمیت نہیں ہے تو لفظِ ســبـحــان کا اختصاص کیونکر مانعِ علمیت ہوسکتا ہے۔


اطلاق کا دوسرا معنی ہے ایک چیز کا دوسری چیز پر محمول کرنا، اس معنی کے اعتبار سے لفظِ ســبـحــان کا الله تعالى کے ساتھ خاص ہونا تو دور کی بات ہے، بلکہ اس کا رب کریم کی ذات پر سرے سے حمل و اطلاق ہی درست نہیں ہے؛ کیونکہ جو چیز محمول ہوتی ہے وہ درحقیقت موضوع کی صفت ہوتی ہے اور سبحان الله تعالى کی کوئی صفت نہیں ہے. اس معنی کے اعتبار سے لفظِ ســبـحــان کے اطلاق و حمل کا مطلب ہوگا کہ یوں کہا جاسکے 

"الله سبحان"، "الله السبحان"


حالانکہ اس طرح کہنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے 

"الله عبادة"، "الله العبادة"

"الله تسبيح"، "الله التسبيح"


تو جس طرح رب کریم عبادت نہیں معبود ہے، مغفرت و غفران نہیں غافر، غفار، غفور ہے، اسی طرح سبحان و تسبیح نہیں سبوح ہے۔


امید ہے کہ إعراب القرآن اور روح المعانی کی جن عبارتوں کی وجہ سے آپ کو اشکال  پیدا ہوا تھا ان کا صحیح مطلب بخوبی سمجھ میں آگیا ہوگا۔


کسی بندے کا نام سبحان رکھنے میں مسمی کی طرف اضافت کا ایہام و احتمال آپ کے ذہن شریف میں کیسے در آیا؟ کیا اسامی کی اضافت مسمیات کی طرف ہوسکتی ہے؟

اضافت کے لیے مضاف اور مضاف الیہ دونوں کا لفظ ہونا ضروری ہے، جب کہ اسما تو الفاظ ہوتے ہیں لیکن مسمیات الفاظ نہیں، بلکہ ذوات و اعیان ہونے ہیں تو پھر ایک لفظ کی غیرِ لفظ کی جانب اضافت کا ایہام یا احتمال کسی عقل والے کو کیسے ہوسکتا ہے؟

جب سبحان کسی بندے کا نام رکھ دیا جائے تو یہ لفظ اس بندے کا علم ہوجائے گا اور اعلام میں اضافت ہوتی ہے نہ اس کا احتمال و ایہام. تو پھر اضافت کے احتمال کا کیا معنی؟


فقیر قادری کو ایسا لگتا ہے کہ اس خیال شریف کا وہی حال ہے جو سیب کے باغ میں درخت سے گرنے والے سیب کو دیکھ کر آئن اسٹائن کے دماغ میں کششِ ثقل کا بھبھوکا پھوٹا تھا۔


:دوسرا وہم ،بلکہ بہتان و افترا

آپ نے فقیر قادری کے سر ایک بہتان باندھتے ہوئے لکھا کہ  "آپ نے فرمایا تھا کہ مصدر نام نہیں ہوسکتا کہ نام وہ لفظ ہوتا ہے جو وصف مع الذات پر دلالت کرے جیسے اسم فاعل، اسم مفعول وغیرہ، جب کہ مصدر صرف وصف پر دلالت کرتا ہے"


:ازالہ 

آپ نے یہاں جو لکھا ہے وہ صریح بہتان اور کھلا افترا ہے، فقیر قادری نے جو عرض کیا تھا اس کو آپ نے اڑادیا اور اس کی جگہ اپنے ذہن سے ایک بات کا اختراع کرکے مجھ فقیر کے ذمہ لگادیا. یہ بات شانِ مسلم کے خلاف ہے چہ جائیکہ عالم۔


ہم نے یہ عرض کیا تھا کہ 

"ہر وہ شخص جس کو عربی زبان و ادب سے معمولی شناسائی بھی ہے وہ یہ بات بدیہی طور پر جانتا ہے کہ لفظِ سبحان مصدر ہے یا علمِ مصدر، بہر صورت وہ وصفِ محض پر دلالت کرتا ہے، اس میں ذات کا لحاظ و اعتبار نہیں ہوتا ہے ، جب کہ الله تعالى کے تمام اسمائے حسنیٰ صفت کے صیغے ہیں جو ذات مع الوصف پر دلالت کرتے ہیں"


اگر انصاف و دیانت کی ابھی دنیا سے پورے طور پر رخصتی عمل میں نہیں آئی ہے اور اس کا کوئی معمولی حصہ بھی باقی ہے تو ارشاد فرمائیے کہ فقیر کی مذکورہ عبارت میں یہ کہاں ہے کہ : "مصدر نام نہیں ہوسکتا" ؟

 

مکرمی! جس کا خود کا نام ہی"اشتیاق" ہو وہ بھلا اس قدر جاہلانہ و احمقانہ بات کیسے کرسکتا ہے کہ مصدر نام نہیں ہوسکتا ؟


فقیر نے جو عرض کیا تھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے مصدر نام رکھنے کے امکان و عدم امکان، یا جواز و عدم جواز پر کوئی بات نہیں کی ہے، بلکہ الله تعالیٰ کے اسمائے حسنی کے بارے میں ایک نفس الامری اور واقعی صورتِ حال کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ رب کریم کے تمام اسمائے حسنی صفات کے صیغے ہیں، ان میں کوئی بھی نام مصدر کا صیغہ نہیں جو وصفِ محض پر دلالت کرتا ہے۔


کیا آپ کے علم شریف میں الله تعالى کا کوئی نام پاک ایسا ہے جو صفت کا صیغہ نہ ہو؟

کیا کوئی نام از قبیلِ مصدر ہے جو بتاویلِ صفت یا مبالغةً محمول ہوتا ہو؟


بہر حال اس بہتان و افترا پر آپ نے جو عمارت کھڑی کی تھی وہ دھڑام سے گرگئی اور لفظِ ســبـحــان کو بے دلیل و ثبوت اپنی عقل سے الله تعالى کا نام بنانے کی سعی لاحاصل کی تھی وہ دم توڑگئی۔


اخیر میں عرض یہ ہے کہ لفظِ ســبـحــان کا الله تعالى کا ذاتی یا صفاتی نام ہونا کتاب و سنت سے ثابت ہے نہ اجماع امت سے، بلکہ اس لفظ کو صرف کچھ اردو بولنے والے یا اردو کے ماحول سے متاثر بعض افراد الله تعالى کا نام یا اس کی صفت سمجھتے ہیں جو ان کی سادہ لوحی اور حقیقت سے بے خبری ہے۔


رب کریم کے تمام اسما توقیفی ہیں، ان میں اپنی عقل سے کمی بیشی جائز نہیں ہے۔

والله هدانا إلى الحق و جنبنا عن الباطل و هو ولي التوفيق۔


اب یہاں سے یہ بات بالکل واضح و ظاہر ہوگئی کہ لفظِ ســبـحــان ہرگز ہرگز الله تعالى کے اسمائے حسنی اور اس کی صفاتِ علیا میں سے کوئی نام یا کوئی صفت نہیں ہے، لہٰذا لفظِ ســبـحــان کی جانب عبد کی اضافت و نسبت کرکے کسی انسان کا نام رکھنا لغو و بے معنی، بلکہ جہالت و حماقت ہے۔ هٰـــذا مــا عـــنــدى و الــعــلـم بـالــحــق و الـــصــواب عــنــد ربــى وهــو الــلّٰــه سـبـحـانـه وتـعـالٰـى أعــلـم بالــصــواب۔

وكــتـــبــه الـفــقيــــر إلٰــى ربـــــــــــــه الــــقــــديــــر :ابـو الـحـسَّـان مُـحَـــمَّــــد اشــــتـــيـــاق الـــقـــادري۔

خـادم الإفـتـاء والـقـضـاء بـــجـــامــعـة مـديـنــة الـعــــــلـم، كـــبـــيـــــر نــگــر، دهــــــــلـي 94