سفر میں مجبورا نماز ترک کر سکتے ہیں یا نہیں؟

سفر میں مجبورا نماز ترک کر سکتے ہیں یا نہیں؟

سفر میں مجبورا نماز ترک کر سکتے ہیں یا نہیں؟

کیا فرماتے ہیں حضرت علامہ مفتی اشتیاق القادری صاحب قبلہ اس مسئلہ میں کہ فی الحال سرکاری جگہوں پر نماز ادا کرنے،میں پابندی ہے، ابھی کچھ ایام قبل لکھنؤ میں کسی جگہ نمازیوں نے نماز ادا کرلی تو ان کو جیل بھیج دیا گیا سرکاری بس اڈا ریلوے اسٹیشن ٹرین ہر جگہ نماز ادا کرنے میں خطرہ ہے اب تک پابند صلوٰۃ ان جگہوں پر نماز ادا کر لیتے تھے کوئی کچھ نہیں کہتا تھا اب یہ خطرہ ہے کہ اگر نماز ادا کی تو جیل جانا پڑے گا یا کوئی شریر مل گیا تو جانی مالی نقصان ہونے کا بھی خطرہ ہے جس کے سبب مسافر نماز ادا نہیں کر پا رہے ہیں فقیر فی الحال سفر میں ہیں نماز ترک کرنے کو جی نہیں چاھتا مگر حالات کو دیکھتے ہوئے مجبور ہیں مفتی صاحب قبلہ ادلہ شرعیہ کی روشنی میں بتائیں کہ اگر نماز مجبوراً ادا نہیں کی سفر میں تو گناہ سے بچنے کا کوئی طریقہ ہے یا نہیں یا جیسے بھی حالات ہوں نماز ادا کریں

المستفتی: فقیر ریاض احمد مداری متصل مسجد مدار العالمین محلہ عباس نگر بہیڑی بریلی یوپی


بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب بعون اللہ العلیم الوھاب وھو الموفق للحق والصواب:

جب تک عقل و ہوش قائم ہے اور نماز ادا کرنے کی کسی بھی درجہ کی قدرت حاصل ہے اس وقت تک نماز ترک کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جان کا خطرہ ہو یا مال کا ، جیل کا اندیشہ ہو یا گرفتاری کا، شدید سے شدید تر بیماری لاحق ہو یا خطرناک سے خطرناک دشمن درپے ہو، امن و قرار کی حالت ہو یا جنگ و اضطرار کی، بہر حال و بہر صورت نماز وقت پر پڑھنا فرض ہے، وقت سے مؤخر کرنا جائز نہیں، جو شخص چھوٹے بڑے، یقینی و غیر یقینی کسی بھی عذر کی وجہ سے نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرے وہ شرعاً مجرم و گناہ گار اور مستحقِ عذابِ نار ہے۔

ہاں عذر و مجبوری کی حالت میں عذر کی نوعیت و حالت کے مطابق شریعت نے بہت سی تخفیفات و تیسیرات رکھی ہیں جو رب کریم کے اس ارشاد پر مبنی ہیں: 

وَ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا وَ لَدَیْنَا كِتٰبٌ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ. (سورة المؤمنون، آية 62)

ترجمہ: اور ہم کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، اور ہمارے پاس وہ کتاب ہے جو بولتی ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ 

رب کریم دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے: 

وَ مَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ. (سورة الحج ،آية 78) 

ترجمہ: اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔

نماز کسی حال میں چھوڑنے اور وقت سے مؤخر کرنے کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں، البتہ عذر کی صورت میں شریعت نے جو آسانیاں عطا فرمائی ہیں ان کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے، حضرت عمران بن حُصین رضی الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ مجھے بواسیر کا عارضہ تھا، تو میں نے رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم سے نماز کے بارے میں پوچھا، آپ نے ارشاد فرمایا: 

صل قائما، فإن لم تستطع فقاعدا، فإن لم تستطع فعلى جَنب. (صحيح البخارى ،حديث نمبر 1117)

کھڑے ہوکر نماز پڑھو، اگر کھڑے ہوکر نہ پڑھ سکو تو بیٹھ کر پڑھو، بیٹھ کر بھی نہ پڑھ سکو تو پہلو کے بل پڑھو۔

اگر کسی کو ایسا شدید مرض لاحق ہو کہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی قدرت نہ رہے تو بیٹھ کر رکوع و سجود کے ساتھ نماز پڑھے، اور خود یا کسی کے سہارے بیٹھ کر بھی نماز نہ پڑھ سکے تو پہلو کے بل یا چت لیٹ کر سر کے اشارے سے نماز پڑھے، اور اگر سر کے اشارے سے بھی نماز پڑھنے پر قدرت نہ ہو تو نماز ساقط ہے. (تفصیل کے لیے کتب فقہ میں نماز مریض کے احکام و مسائل کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے)

نماز کی اہمیت اور اس کی ادائیگی کی تاکید کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ دشمن سر پر ہو اور جان مال کے ضیاع کا یقینی خطرہ ہو اس وقت بھی نماز ترک کرنے کی اجازت نہیں، بلکہ اس حالت میں بھی نماز کی فرضیت اپنی جگہ پر قائم ہے اور اس کی ادائیگی کا مطالبہ برقرار ہے، ہاں اس حالت میں نماز ادا کرنے کے لیے بہت ساری آسانیاں بھی ہیں جنہیں فقہ و فتاویٰ کی کتابوں سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔

رب کریم ارشاد فرماتا ہے: 

حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُكْبَانًا فَاِذَاۤ اَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ. (سورة البقرة، آيات 238، 239)

ترجمہ: تمام نمازوں کی پابندی کرو اور خصوصاً درمیانی نماز کی اورالله کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو۔

پھر اگرتم خوف کی حالت میں ہو توپیدل یا سوار (جیسے بھی ممکن ہو نماز پڑھو) پھر جب حالتِ اطمینان میں ہوجاؤ تو الله کو یاد کرو جیسا اس نے تمہیں سکھایا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔

خوف کی حالت میں نماز پڑھنے کا طریقہ خود رب کریم نے یوں ارشاد فرمایا ہے: 

وَ اِذَا كُنْتَ فِیْهِمْ فَاَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلٰوةَ فَلْتَقُمْ طَآىٕفَةٌ مِّنْهُمْ مَّعَكَ وَ لْیَاْخُذُوْۤا اَسْلِحَتَهُمْ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَكُوْنُوْا مِنْ وَّرَآىٕكُمْ وَ لْتَاْتِ طَآىٕفَةٌ اُخْرٰى لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَكَ وَ لْیَاْخُذُوْا حِذْرَهُمْ وَ اَسْلِحَتَهُمْ وَدَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِكُمْ وَ اَمْتِعَتِكُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْكُمْ مَّیْلَةً وَّاحِدَةً وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِنْ كَانَ بِكُمْ اَذًى مِّنْ مَّطَرٍ اَوْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَنْ تَضَعُوْۤا اَسْلِحَتَكُمْ وَ خُذُوْا حِذْرَكُمْ اِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًا. (سورة النساء، آية 102)

اور (اے حبیب) جب آپ ان میں ہوں پھر انہیں نماز پڑھائیں تو چاہئے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لیے کھڑی ہو، پھر جب وہ سجدہ کرلیں تو ہٹ کر تمہارے پیچھے ہوجائیں، اور اب وہ دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی ہے آجائے اور آپ کے ساتھ نماز ادا کرے اور اپنا بچاؤ اور اپنے ہتھیار لیے رہے، کافر چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم اپنے ہتھیاروں اور سامان سے غافل ہو جاؤ تو وہ یکبارگی تم پر ٹوٹ پڑیں، اور اپنے ہتھیار اس وقت اتار کر رکھنے میں کوئی گناہ نہیں جب تمہیں بارش کی وجہ سے تکلیف ہو یا تم بیمار ہو ، البتہ اپنے بچاؤ (کا سازوسامان) لیے رہو، بے شک الله تعالى نے کافروں کے ليے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔

ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے یہاں سب کو اپنے دین و مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے، البتہ کسی کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ دوسرے کی مذہبی روایات و جذبات کو مجروح کرے، ان کی تضحیک و توہین کرے اور ان کے خلاف ایسے قول و فعل کو اختیار کرے جس سے دوسرے کو تکلیف پہنچے۔

نماز پڑھنا مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے اور پوری روئے زمین پر ہم شرعی حدود میں رہتے ہوئے جہاں چاہیں نماز اداکرسکتے ہیں، اس کے لیے ہم آزاد بھی ہیں اور شرعی اعتبار سے مکلف و پابند بھی. ہمارے اس دینی، شرعی اور آئینی حق کو ہم سے کوئی چھین سکتا ہے نہ اس پر کسی قسم کی روک اور پابندی عائد کرسکتا ہے، اگر بالفرض اس دینی حق پر کوئی پابندی عائد کرنے کی کوشش کرے گا تو ہم اپنے دین کے رہنما اصول کی روشنی بھرپور مزاحمت کریں گے اور ایسی کسی بھی کوشش کو ان شاء الله تعالى ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

ابھی تک بحمدہ تعالیٰ ملک میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ مسلمان کھلے عام نماز ادا نہیں کرسکتے، ہاں یہ ضرور ہے کہ تعصب و تنگ نظری کی وجہ سے کچھ شرپسند عناصر شور و ہنگامہ برپا کرتے رہتے ہیں. مسلمانوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے کے لیے پولیس وغیرہ کا سہارا لے کر جھوٹ کا بازار گرم کرتے ہیں اور افواہیں پھیلاکر سماج میں منافرت کا زہر گھولتے پھرتے ہیں۔

ان اوچھی حرکتوں اور گھٹیا قسم کی کارروائیوں سے ہم خائف ہیں نہ اپنے دینی فرائض کی انجام دہی سے پیچھے ہٹنے والے ہیں۔

البتہ یہاں اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ سفر و حضر ہر حالت میں جہاں تک ممکن ہو نمازیں مساجد میں ہی ادا کی جائیں، اس کے فضائل و فوائد بھی ہیں اور موجودہ حالات میں بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں بھی۔

نماز افضل العبادات ہے، لہٰذا اس کے لیے افضل المواضع اور افضل الاحوال کا انتخاب کرنا افضل المخلوقات کی ذمہ داری ہے، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ حال و محل و ماحول کی رعایت کیے بغیر ہم جہاں چاہیں وہاں نماز پڑھنا شروع کردیں، غیر اسلامی ممالک خصوصاً جہاں عصبیت و منافرت کا ماحول ہو وہاں حالات کی نزاکت کو سمجھے بغیر ریلوے اسٹیشن، ایر پورٹ، بس اسٹاپ، عوامی مقامات، راستوں، چوراہوں وغیرہ پر نماز پڑھنا کئی مرتبہ نزاع و فساد کا باعث ہوسکتا ہے، امن و سکون کی فضا مکدر ہوسکتی ہے، شرارت پسند، دین دشمن طبقہ کو شرانگیزی کا موقع ہاتھ آسکتا ہے اور اس طرح روح نماز بھی متأثر ہوسکتی ہے، لہٰذا حزم و احتیاط کے ساتھ مناسب جگہ کا انتخاب کرکے ہی نماز پڑھنا چاہیے۔

آپ فقہائے کرام کے مندرجہ ذیل ارشادات کا بغور مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ہماری شریعت کس درجہ بلند اصول، اعلی احتیاط، مضبوط مصلحت ، اور جامع حکمت پر قائم ہے۔

امام علاؤ الدین محمد بن علی حصکفی حنفی (متوفی 1088ھ) رحمه الله تعالى فرماتے ہیں: 

تكره (الصلاة) فى أماكن كفوق كعبة، وفى طريق، و مزبلة، و مجزرة، و مقبرة، و مغتسل، و حمام، و بطن واد، و معاطن إبل و غنم و بقر. زاد فى الكافى : و مرابط دواب، و إصطبل ،و طاحون، وكنيف، وسطوحها ،ومسيل واد، و أرض مغصوبة، أو للغير لو مزروعة أو مكروبة، و صحراء فلا سترة لمار. (الدر المختار ،ص 55)

چند مقامات پر نماز پڑھنا مکروہ ہے جیسے کعبہ کی چھت پر (کیونکہ یہ کعبہ معظمہ کی مطلوبہ تعظیم کے خلاف ہے. شامی، جلد 2، ص 42) ، عام راستہ میں (کیونکہ اس سے آمدورفت میں لوگوں کو پریشانی ہوگی. شامی) ، کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ، مذبح (کیونکہ یہ گندگی و نجاست کی جگہیں ہیں)، قبرستان (کیونکہ یہ شرک کا ذریعہ ہے اور اس میں یہودیوں سے تشبہ ہے. شامی) ، غسل خانہ، حمام (کیونکہ یہاں غسل کا پانی گرتا ہے اور یہ جگہ شیاطین کی خواب گاہ ہے) ، نالا، اونٹ، بکری اور گایوں کے رات گذارنے کی جگہ،(بکریوں کے ٹھکانے کا ذکر ظاہر حدیث کے خلاف ہے، لہٰذا اس کا ذکر نہیں کرنا چاہیے) چوپایوں کے باندھنے کی جگہ، اصطبل (ان تمام جگہوں کا نجاست سے آلودہ ہونا ظاہر ہے. شامی) ، چکی (کیونکہ چکی کا شور نماز میں مخل ہوگا. شامی) ، بول و براز کی جگہ، اس کی چھت (کیونکہ یہ محل نجاست ہے اور اس کی چھت پر نماز پڑھنا نظافت کے خلاف ہے) ، غصب کی ہوئی زمین، دوسرے کی جتی ہوئی یا کھیتی والی زمین (کیونکہ ان صورتوں میں حق تلفی ہے) اور صحراء میں بغیر سترے کے۔

مذکورہ مقامات میں سے سات جگہوں پر نماز پڑھنے کی کراہت ترمذی و ابن ماجہ کی ایک حدیثِ ضعیف میں بھی مذکور ہے۔

مذکورہ مقامات پر نماز پڑھنے کی کراہت کے اسباب و وجوہ پر غور کرنے سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ نماز کے تقدس اور اس کی عظمت کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے جو حق غیر سے آزاد ہو، وہاں شور و شغب نہ ہو، وہ جگہ پاک صاف ہو، نماز کا تقدس پامال نہ ہو۔

موجودہ ملکی حالات اگر بد سے بدتر اور اب سے ہزاروں گنا ابتر بھی ہوجائیں تب بھی نماز ترک کرنے اور قضا کرکے پڑھنے کی شرعاً اجازت نہیں، بلکہ ہرحال میں نماز پڑھی جائے گی، خواہ اس کی پاداش میں جیل ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ والله تعالى أعلم بالصواب.


کتبہ الفقیر الی ربہ القدیر: ابو الحسان محمد اشتیاق القادری خادم الافتاء والقضاء بجامعۃ مدینہ العلم کبیر نگر دہلی 94